’اماں کا کنبہ:‘ جنریشن گیپ کے مسائل

ڈراما نیم مزاحیہ ہے اور کہانی آج کے دورسے مطابقت بھی رکھتی ہے، لیکن اگر اس کو ڈھنگ سے برتا جاتا تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی۔

اماں کا کنبہ میں ایک روایتی خاندان کی کہانی دکھائی گئی ہے (پی ٹی وی ہوم)

انسان کا باشعور ہونا یہ ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ہونے والی تبدیلی کو قبول کرے۔ جو لوگ روایات کے نام پہ جمود کا شکار ہو رہتے ہیں یا صرف اپنے مطلب کی تبدیلی مجبورا قبول کرتے ہیں ان کو اولاد کا دکھ سہنا ہی پڑتا ہے، جس میں قصور وار بھی اولاد ہی کہلاتی ہے۔

حالانکہ یہ جینریشن گیپ ہوتا ہے کیوں کہ ہر نسل کو اس کے دور کے مطابق جینے کا حق ہے، مگر ہر نسل کی بےشمار توانائی مزاحمت کرتے گزر جاتی ہے۔

گویا انسان نے جو بویا ہوتا ہے وہی کاٹتا ہے، باقی رہ جاتے ہیں جذبے جو فطری عمل ہیں تو جناب ڈراما ’اماں کا کنبہ‘ بھی جذبوں کی ایک ناپختہ مگر مجبور صورت ہے۔

’اماں کا کنبہ‘ میں ایک روایتی گھرانہ دکھایا گیا ہے۔ پرانا روایتی گھر اور مکان جو اپنی خستہ خالی کے باوجود اماں کو بہت پیارا ہے، جسے وہ کسی صورت وراثت کی تقسیم کا حصہ نہیں بننے دے رہیں۔

اماں بیوہ ہیں اور ان کے چار بچے ہیں دو بیٹیاں دو بیٹے۔ ایک بیٹی کار حادثے میں اپنے شوہر کے ساتھ اس فانی دنیا سے کوچ کر گئی۔ اماں نے اس کے بیٹے ازلان کو بھی پالا۔

ازلان اب جوان ہو چکا ہے اور اپنی خالہ شنو کا ساتھی بن کر اس کی زندگی کی تلخیوں کو سہولت میں بدلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ویسے بھی دونوں بہن بھائی کی طرح ساتھ پلے ہیں اس لیے ایک دوسرے اور گھر کے حالات کو سمجھتے ہیں، ورنہ اماں کے اصولوں بھری زندگی میں شنو کی جہاں شادی نہیں ہو سکی وہاں اس کا ذہنی توازن بھی بگڑ جاتا، مگر وہ ازلان کی وجہ سے مسکراتی ہے۔

گھر کا ایک اہم فرد پرانا ملازم اشرف ہے جس نے اپنی ساری عمر اماں کے گھر میں ان کے اصولوں کے ساتھ گزار دی ہے۔ وہ اماں کا وفا دار اور گھر کے فرد جیسا ہے۔

اماں کے دو بیٹے ابراہیم اور اسمٰعیل ہیں جو شادی کے بعد اپنی بیویوں کو پیارے ہو چکے ہیں اور دونوں گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

چھوٹا بیٹا تو کینیڈا چلا گیا تھا، اس کی ایک بیٹی رشنا ہے۔ بڑا بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ الگ بس رہا ہے۔ اس کا ایک بیٹا شارق ہے جو لاڈ پیار میں حد سے زیادہ بگڑ چکا ہے۔ کہیے کہ اس کے گھر تو مکافات عمل شروع ہو گیا ہے اس نے ماں کے ساتھ کیا ویسی ہی اولاد اس کو مل گئی۔

شنو اماں کی چھوٹی بیٹی ہے۔ ادھیڑ عمر میں پہنچ گئی ہے مگر حالات و واقعات کی وجہ سے اس کی شادی نہیں ہو سکی۔ اماں کےاصولوں میں اتنا وقت اور درد گزر جانے کے باوجود نرمی نہیں آئی اور رشتے نرمی کی ڈوری سے بندھے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیٹے پسند کی شادی کر سکتے ہیں مگر بیٹی کی زندگی گھر کی چار دیواری اور مصالحوں، کپڑوں اور کاموں میں چل تو رہی ہے، اس پہ بھی اماں نالاں ہیں کہ شاید ساری نالائق اولاد ان کے نصیب میں ہی لکھی ہے، مگر ہم شنو ذہنی طور پہ صحت مند نہیں کہہ سکتے، اس کی ہنسی کے پیچھے درد روتا ہے۔

وہ چلتی ہے تو اسے کوئی نہ کوئی شے گر کے ٹوٹ جاتی ہے گویا وہ اندر سے کہیں ٹوٹی ہوئی ہے۔

اذلان نے اس کو موبائل لا دیا ہوا ہے اس کا فیس بک اکاؤنٹ بنا دیا ہے، یہ اس کی اماں سے چھپی ہوئی ایک چھوٹی سی بغاوت ہے۔

اس کی زندگی کی ایک کھڑکی ہے جس سے اس نے ماں کے احساس کو سمجھتے ہوئے اپنے دونوں بھائیوں سے رابطہ کر کے ان کو بلانے کی کوشش کی ہے، تاکہ مل کر ایک خاندان کےطور پہ زندگی شروع کی جا سکے اور ماں کو ان کی اولاد سے ملایا جا سکے۔

تنہائی انسان کو کڑوا کر دیتی ہے۔ اماں جو ’اماں سویٹس‘ کی مالکن بن چکی ہیں، ان کی مٹھائیاں اب بیرونِ ملک بھی فروخت ہونے لگی ہیں وہ ایک برانڈ بن گئی ہیں، مگر اتنی مٹھاس کے باوجود ان کے اندر کڑواہٹ ہے۔

یہ وقت کی اور حالات کی کڑواہٹ ہے۔ جب ان کو اپنے بیٹوں کی ضرورت تھی وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے، جب ماں امیر ہو گئی تو وہ اپنی جائیداد کا حصہ لینے آ گئے۔

اماں اولاد کی لالچ سے لاعلم نہیں ہیں۔ جب بیٹے بیویوں کے کہنے پہ گھر چھوڑ کر گئے تھے اس وقت گھر کے معاشی حالات بہت خستہ تھے۔ خستہ معاشی حالات اور دنیا سے نرالے پرانے اصول کسی کو بھی بغاوت پہ مجبور کر سکتے ہیں۔

20 سال بیٹے بہو، پوتا، پوتی اماں سے نہیں ملے، مگر اماں انہیں یاد کرتی ہیں کسی پہ ظاہر بھی نہیں ہونے دیتیں کہ وہ بچوں کو مس کر رہی ہیں۔

ان مشکل حالات میں مٹھائی بنانے سے ’اماں سویٹس‘ کے برانڈ تک کا سفر ہوا اور بڑے بیٹے کے اپنے معاشی حالات خراب ہو گئے۔

چھوٹا بیٹا بیوی بچوں کے ساتھ کینڈا شفٹ ہو گیا ہے، یوں اس کی بیوی دیسی گوری کے روپ میں ڈھل گئی۔

دونوں بیٹے اپنی بیویوں کے ساتھ خوش ہیں مگر ہمارے ہاں یہی مسئلہ ہے کہ لڑکے سماجی اصولوں کے مطابق دونوں رشتوں میں توازن برقرار نہیں رکھ سکتے۔ وہ بیوی کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں جس سے زندگی غیر متوازن ہو جاتی ہے۔ کہیں وہ بھی سماجی گھٹن کا شکار ہوتے ہیں۔

پڑوس میں ایک خاندان شفٹ ہوا ہے۔ ماں بیٹی ہیں۔ بیٹی کو اذلان کو دیکھتے ہی کچھ کچھ ہو جاتا ہےاور وہ اسے اپنا خیالی شوہر مان لیتی ہےاور اس گھر کو خیالی سسرال سمجھنے لگتی ہے، مگر شارق کو دیکھنے کے بعد بھی اس کے جذبات میں وہی اتھل پتھل ہوتی ہے۔

وہ شارق کو بھی خیالوں کا شہزادہ بنا لیتی ہے اور اس کی ماں اس کی ہر بات مذاق میں اڑا دیتی ہے بلکہ مرد کو قابو کرنے کے بارے میں عجیب و غریب مشورے دیتی ہے۔

اگر یہ سب مزاح ہے تو بھی بہت غیر معیاری ہے، اگر بیمار کردار ہے تو اس کو بیمار کردار بتانا چاہیے، ورنہ یہ بھی معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔

ٹھرکی مرد جتنا نقصان دہ کردار ہے، ٹھرکی عورت بھی اتنا ہی خطرناک کردار ہے۔ اگر لڑکوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہن ہو تو ان میں حیا ہوتی ہے، تو شاید یہ اصول اس کردار پر بھی لاگو ہوتا ہے کیونکہ اس گھرانے میں کوئی مرد نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ گھر ’وٹامن مرد‘ کی کمی کا شکار ہے۔

ڈراما نیم مزاحیہ ہے مگر مزاح کا معیار زوال کا شکار ہے۔ کہانی اچھی ہے، آج کے دورسے مطابقت بھی رکھتی ہے اگر اس کو ڈھنگ سے برتا جاتا تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی۔

مرکزی خیال البتہ عمدہ ہے۔ وقت کے ساتھ انسان اگر نہ بدلے تو وقت اس کو مجبور کر کے اپنی ڈگر پہ خود لے آتا ہے، لیکن تب تک بہت سے پچھتاوے باقی رہ جاتے ہیں۔ بہت سے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔ بہت سا وقت پیچھے رہ چکا ہوتا ہے اور وقت ہی سب سے بڑی دولت ہے۔

ڈرامے کے مصنف مہوش حسن اور اشعر نعیم ہیں جب کہ ہدایت کار سلمان جعفری ہیں اور ڈراما پی ٹی وی ہوم سے نشر ہو رہا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ