’عبداللہ پور کا دیوداس‘ یکم مارچ سے یوٹیوب چینل زی زندگی سے نشر ہو رہا ہے۔ یہ انڈیا و پاکستان کی مشترکہ پیشکش ہے، اس لیے ڈرامے میں ایک منفرد رنگ دکھائی دے رہا ہے جو مکمل پاکستانی ہے اور نہ ہی انڈین۔
دیوداس سیریز پہ بہت سی فلمیں بنی ہیں۔ یہ ڈراما بھی اس سیریز کا حصہ ہی کہہ سکتے ہیں۔ عشق کی کہانی ہے مگر یہ عام سا عشق نہیں ہے، اس کے دھاگے تصوف سے جا ملتے ہیں تو کہیں تاریخ سے الجھ جاتے ہیں۔
’عبداللہ پور کا دیوداس‘ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ کوئی نوسٹیلجیا ہے جو بٹوارے سے اب تک مسلسل لکھا جا رہا ہے۔ شہر لاہور ایک محبوبہ ہے جو ہجر کی بھینٹ چڑھ گئی ہے، جو اس کو دیکھتا ہے دیوانہ ہو جاتا ہے، عاشق ہو جاتا ہے۔ صوفی رنگ بھی ہے اور زندگی کے فلسفے کا رنگ بھی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ کردار مثالی نہیں، انسانی ہیں۔
عبداللہ پور کا جو فرضی منظرنامہ ہے وہ بھی اندرون لاہور کا ہی ہے اور ہیرو بھی حالات کے ہاتھوں سفر کرتا لاہور سٹیشن پہ ہی اترا ہے۔ فخر کو عبداللہ پور میں اچانک سفید محل کی شہزادی گل بانو کو ایک نظر دیکھتے ہی محبت ہو جاتی ہے۔ گل بانو کو فخر کی شکل بھی یاد نہیں ہے، بس یہ یاد ہے کہ کوئی چھتری تھی اور کوئی ہیرو تھا۔
گل بانو کو بھی ایک بہادر شاعر سے دو لمحوں میں ہی اَن دیکھا عشق ہو جاتا ہے۔ عشق اندھا ہوتا ہے اور اس ڈرامے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کتنا اندھا ہو سکتا ہے؟ جوانی کے جذبات کے تال پہ دو جذباتی انسان محبت میں سارے جنگل کو آگ لگا سکتے ہیں۔ فخر برسات کی اس رات کے بعد گل بانو کی خبر رکھنے لگتا ہے۔ وہ گل بانو کی منگنی والے دن فوٹو گرافر بن کرسفید محل پہنچ جاتا ہے، منگنی پہ بیدار سے اس کا جھگڑا بھی ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گل بانو کی خاطر فخر عبداللہ پور میں بیدار کے خلاف آزاد امیدوار کے طور پہ الیکشن میں کھڑا ہوتا ہے۔ اس دوران بیدار قتل ہو جاتا ہے۔ فخر قتل کیس میں جیل چلا جاتا ہے، وہاں اسے شاہ جہاں ملتا ہے جو قتل کیس میں ہی قید ہے۔ اس کے توسط سے بیگم جہاں آرا فخر کو معاف کر دیتی ہیں اور اس شرط پہ معافی ملتی ہے کہ وہ عبداللہ پور چھوڑ دے گا۔ وہ عبداللہ پور چھوڑتا ہے اور لاہور آ جاتا ہے۔
گل بانو فخر کی خالہ زاد بھی ہے۔ گل بانو کا تایازاد شہروز بھی اس سے عشق کرتا ہے۔ اس کے تایا سلامت کو اس شادی میں اپنا مفاد نظر آ رہا ہے کہ اس کے بھائی کی اکلوتی و یتیم بیٹی کی ساری جائیداد گھر آئے گی۔
اسی دوران یونیورسٹی مشاعرے میں عبداللہ پور کا دیوداس کے نام سے اس کا بیج فیلو کاشف، جو فخر کا خالہ زاد بھی ہے ایک نظم پڑھتا ہے جوفخر کا ہی کلام ہے، مگر فخر کا یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ہو سکا۔ اس دن سے گل بانو کاشف کو ہی عبداللہ پور کا دیوداس سمجھ کر گرفتارِ محبت ہو جاتی ہے اور کاشف بھی جانے انجانے میں اسے دل دے بیٹھتا ہےاور گل بانو اس کو دیوداس کا دل سمجھ کر قبول بھی کر لیتی ہے۔
گل بانو کے اندر وہی روایتی لڑکی ہے جو سمجھتی ہے کہ اصل ہیرو وہ ہے جو ہمارے لیے دنیا سے مار کھا سکے اور عشق روایتی لڑکی اور لڑکا ہی کر سکتے ہیں، لہذا عشق مشق بن جاتا ہے۔ خیر کاشف پہ بھی یہ پول جلد کھل جاتا ہے کہ گل بانو ایک اَن دیکھے محبوب سے عشق کر بیٹھی ہے جو اس کا کزن فخر ہی ہے۔ لاہور میں عشق پر لگا کر اڑنے لگا ہے۔ ایک طرف کاشف ہے ، ایک طرف شہروز ہے، ایک طرف فخر ہے اور ایک طرف پرانا لاہور ہے۔
اہم موڑ کہانی میں تب آتا ہے جب یہ راز فاش ہوتا ہے کہ پچھلی نسل کا دیوداس تو شاہ جہاں ہے، جو موتی محل کی شہزادی جہاں آرا کو دل دے بیٹھا تھا اور فخر ہی کی طرح قتل کیس میں قید ہے۔
’عبداللہ پور کا دیوداس‘ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ کوئی نوسٹیلجیا ہے جو بٹوارے سے اب تک مسلسل لکھا جا رہا ہے۔
جہاں آرا کا کردار سویرا ندیم کر رہی ہیں۔ شاہ جہاں کا کردار نعمان اعجاز نے ادا کیا ہے۔ جہاں آرا نے شاہ جہاں سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ الیکشن جیت گئی تواسے رہائی دلا دے گی لیکن اس کے لیے جسمانی رہائی اب معانی ہی نہیں رکھتی۔ شاہ جہاں نے فخر کو رہائی ہی اس لیے دلوائی تھی کہ وہ سمجھ سکے کہ ہجر کا درد زیادہ ہے یا وصل کا؟ فخر بھی لاہور آ کر سیاست میں آ گیا ہے۔ اسے کسی مزار پہ ایک بزرگ ملے تھے انہوں نے لمحہ موجود میں پوچھا کہ بول کیا چاہتا ہے، محبت یا محبوب تو فخر نے محبوب مانگ لیا تھا۔
بیدار کی وفات کے بعد مجبوراً شہروز سے شادی کے لیے بھی وہ تیار ہو جاتی ہے۔ نکاح والے دن اس کی چچی کی مدد سے وہ پارلر سے نکل کر غائب ہونے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے۔ موبائل کے جدید دور میں بھی کالے کپڑوں والی پولیس اسے پکڑنے میں ناکام اس لیے ہے کہ معمہ عشق کا ہے۔ پنجاب کی پولیس نے کالی وردی پہن رکھی ہے، ایسی بہت سے تکنیکی خامیاں جا بجا موجود ہیں مگر کہانی کی گرفت اتنی مضبوط ہے اور پروڈکشن ہاؤس انڈیا کا ہے اس لیے ان سب پہ نظر ہی نہیں رکتی۔
کردار بہت شاندار ہیں۔ جیسی کہانی ہے بات بہتان پہ آ جاتی ہے مگر ایسا ایک جملہ بھی کسی کردار نے ادا نہیں کیا۔ بڑے ظرف کے کردار ہیں خصوصاً خواتین کے کردار بہت اعلیٰ ظرف ہیں۔ جہاں آرا ایک مضبوط خاتون ہیں تو گل بانو بھی ایک مضبوط کردار ہے۔ کسی عورت نے دوسری عورت کو بد کردار نہیں کہا، نہ ہی کسی نے دوسری کا رستہ روکنے کی کوشش کی۔
مصنف شاہد ڈوگر ہیں، ڈائریکٹر انجم شہزاد ہیں۔ پروڈکشن ہاؤس تماشا فلم ہے۔ موسیقی بہت عمدہ ہے اور مکالمہ اونچے سروں کا ہے۔ یہ سیریز فلم و ڈراما کے اشتراک کی ایک مشترکہ و مقبول کاوش ہے جو بہت پسند کی جا رہی ہے اور بلا شبہ تعریف کے قابل ہے۔
دیکھتے رہیے کہ اس صدی کا دیوداس اپنی پارو کو ملتا ہے یا نہیں؟
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔