بیروزگاری: طالبان کا افغان مزدوروں کو بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ

افغان حکام کے مطابق قطر کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، ترکی اور روس میں بھی افغان لیبر کو بھیجنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔

افغان مزدور 19 مارچ 2024 کو کابل کی ایک سڑک کے کنارے اپنے ریڑھوں پر بیٹھے کام کے انتظار کر رہے ہیں (اے ایف پی)

طالبان کی عبوری حکومت نے افغانستان میں بیروزگاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے خلیجی ملک قطر میں روزگار کے مواقع حاصل کرنے کے لیے افغان مزدوروں کو بھیجنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔

افغان حکام کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، ترکی اور روس میں بھی افغان مزدوروں کو بھیجنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔

منگل کو اس نئے پروگرام کے تحت دو ہزار ہنر مند افراد کی رجسٹریشن کا آغاز ہوا جن کا تعلق ہوٹلنگ، خوراک و مشروبات اور انجینئرنگ کے شعبوں سے ہے۔

اس سکیم کے تحت افغانستان کے تمام 34 صوبوں سے امیدوار اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور اسناد جمع کرا سکتے ہیں اور حکام ان کی اہلیت کا جائزہ لے گی۔

یہ رجسٹریشن ایسے وقت میں شروع ہوئی ہے جب حالیہ مہینوں میں کم از کم 15 لاکھ افغان باشندوں کو ایران اور پاکستان جیسے ہمسایہ ممالک سے زبردستی واپس افغانستان بھیجا گیا ہے۔ اس وقت افغانستان سنگین اقتصادی اور انسانی بحران کا بھئ شکار ہے۔

امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں واپسی کرنے والے افغان شہریوں کی وجہ سے مقامی سہولیات پر دباؤ بڑھ گیا ہے اور بیرون ملک کام کرنے والوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔

طالبان کی عبوری وزیرِ محنت عبد المنان عمری نے مزدوروں کو بیرون ملک بھیجنے کے اس پروگرام کو ایک ’اہم اور بنیادی قدم" قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، ترکی اور روس کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔

عبد المنان عمری نے پیر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’ہم ان ممالک میں ہنر مند، نیم ہنر مند اور پیشہ ور افغان کارکنان بھیجنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم افغان لیبر کے قانونی حقوق اور بیرون ملک ان کی سلامتی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔ ہمارا مقصد غیر قانونی ہجرت کو روکنا اور افغان کارکنوں کے وقار اور عزت کو برقرار رکھنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ دنیا میں صرف روس نے طالبان کو افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم کیا ہے باقی ممالک کے طالبان کے ساتھ نچلی سطح پر سفارتی تعلقات موجود ہیں۔

قطر 2021 میں غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے دوران ایک اہم مرکز ثابت ہوا۔ قطر ہی وہ ملک ہے جہاں طالبان کا سفارتی دفتر واقع ہے اور 2019 میں یہیں طالبان اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے درمیان امن مذاکرات ہوئے تھے۔

طالبان کے نائب وزیراعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ قطر میں لیبر بھیجنے کا یہ اقدام بے روزگاری کم کرنے اور ترسیلات زر کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے میں مدد دے گا۔

افغانستان میں اب بھی لاکھوں افراد انسانی امداد پر انحصار کرتے ہیں لیکن امداد فراہم کرنے والے اداروں اور این جی اوز کو فنڈنگ میں شدید کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کم ہوتا جا رہا ہے۔

ملا عبدالغنی برادر نے پیر کو اس پروگرام کے آغاز پر کہا: ’ہنر مند اور پیشہ ور افغان مزدوروں کو قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجنے کا عمل قومی معیشت پر مثبت اثر ڈالے گا اور بیروزگاری میں کمی لائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت گذشتہ چار سال سے بیروزگاری میں کمی کے لیے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری، تجارتی تعلقات کے فروغ اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخندزادہ نے قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی سے افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں ملاقات کی تھی۔ یہ کسی غیر ملکی رہنما کے ساتھ ان کی پہلی عوامی طور پر سامنے آنے والی ملاقات تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر