افغان باشندوں کی واپسی سے پشاور کی معیشت، ثقافت اور ہنر بھی متاثر

افغان مہاجرین کی وطن واپسی سے پشاور میں افغان ملبوسات اور قالین سازی جیسے روایتی کاروبار شدید متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی واپسی صرف انسانی ہجرت کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے اثرات پشاور کی معیشت، ثقافت اور کاروبار پر واضح محسوس کیے جا رہے ہیں۔

چند دہائیوں پر محیط افغان پناہ گزینوں کے قیام نے پشاور کے سماجی اور ثقافتی رنگ میں گہری آمیزش پیدا کر دی تھی۔ 

افغان ملبوسات پر کی گئی ہاتھوں کی کڑھائی، موتیوں سے مزین شرٹس اور رنگا رنگ کوچی لباس نہ صرف عام زندگی میں رائج ہو چکے تھے بلکہ انہیں ’پشاوری لباس‘ کا نام بھی دیا جانے لگا تھا۔

یہ پہناوے مقامی گاہکوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سیاحوں میں بھی مقبول تھے اور ان کی قیمت 3500 روپے سے شروع ہو کر لاکھوں روپے تک جا پہنچتی تھی۔

لیکن اب افغان باشندوں کی واپسی کے بعد ان کی مانگ میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 

افغان ملبوسات کے ایک دکان دار احمد نے بتایا ’کچھ عرصے سے بمشکل اخراجات پورے ہو رہے ہیں کیونکہ افغانوں کے جانے سے کاروبار بہت متاثر ہوا ہے۔‘

ان کے مطابق ’افغان لباس یہاں صرف مہندی کی تقریبات یا تحفے کے طور پر خریدا جاتا ہے، مگر افغان خواتین اسے روزمرہ پہننے کے لیے خریدتی تھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان اور قبائلی اضلاع سے اینٹیک زیورات، جھومر اور کمر بند بھی خریدا جاتا تھا جو نئے کپڑوں پر لگا کر بیرونِ ملک بھیجے جاتے تھے۔

’ان کی قیمت لاکھوں روپے تک پہنچتی تھی مگر اب خریدار ہی نہیں رہے۔‘

یہی زوال قالین بافی کے شعبے میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ پشاور میں مقیم افغان خواتین گھروں میں دلکش رنگوں اور پیچیدہ ڈیزائنوں کے قالین تیار کرتی تھیں، جو نہ صرف پاکستان بلکہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں برآمد کیے جاتے تھے۔

لیکن اب یہ ہنر بھی پشاور سے رخصت ہو رہا ہے۔ قالین کے کاروبار سے وابستہ تاجر عثمان کا کہنا ہے ’کبھی یہاں قالینوں کی بہت دکانیں تھیں، مگر اب صرف 20 کے قریب رہ گئی ہیں۔ 70 فیصد قالینوں کے کاروبار سے منسلک افغان واپس جا چکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ طورخم سرحد کی بندش، ٹرانسپورٹ کے بڑھتے اخراجات اور قالین بنانے والی خواتین کی عدم موجودگی کے باعث قالین سازی کے مراحل تقریباً رک چکے ہیں۔

بازاروں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ جن مارکیٹوں میں کبھی سینکڑوں افغان دکانیں آباد تھیں، اب وہاں چند کاروباری افغان باقی بچے ہیں جو اپنا سامان سمیٹ رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا