انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تحصیل بیروہ کے دامن میں بسے رامہامہ گاؤں کی شہرت محض کھیتوں اور کھلیانوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب یہاں ہر طرف شہد کی مکھیوں کی نرم بھنبھناہٹ سنائی دیتی ہے۔ اسی لیے اسے بڈگام کا ’شہد گاؤں‘ کہا جانے لگا ہے۔
یہاں کے لوگوں کی معیشت میں روزگار کے نئے در کھل چکے ہیں اور خوش حالی کی خوشبو پھیل رہی ہے۔
ان خوشبو بھری کہانیوں میں ایک سب سے نمایاں نام مشتاق احمد میر کا ہے۔
نرم گفتار کسان مشتاق نے 2010 میں اپنے صحن میں صرف دس ڈبوں سے شہد کے کاروبار کا آغاز کیا تھا۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’تقریباً پانچ برس تک مجھے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ کئی بار لگا کہ یہ کام چھوڑ دوں، لیکن ایک امید تھی جو آگے بڑھاتی رہی۔‘
اصل موڑ اس وقت آیا جب انہیں محکمہ زراعت اور نیشنل ہنی بورڈ کی جانب سے تربیت ملی۔ وہاں انہوں نے سیکھا کہ کالونیوں کی بہتر دیکھ بھال کیسے کی جائے، بیماریوں سے بچاؤ کے طریقے کیا ہوں اور موسموں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اٹھایا جائے۔
علم اور صبر نے آہستہ آہستہ ان کی قسمت بدل دی اور آج مشتاق کے پاس 500 سے زیادہ شہد کی مکھیوں کی کالونیاں ہیں جو ہر سال سات سے آٹھ ہزار کلو گرام شہد پیدا کرتی ہیں۔
شہد کی یہ سنہری مٹھاس بڈگام کے ساتھ بارہ مولہ، اننت ناگ اور دیگر اضلاع تک بھی پہنچتی ہے۔
مشتاق اس کامیابی کا بڑا حصہ سرکاری معاونت کو دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’محکمہ زراعت نے آلات فراہم کیے اور پروسیسنگ یونٹ قائم کیا۔ اگر یہ سہولیات نہ ملتیں تو یہ سفر شاید اتنا آسان نہ ہوتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کامیابی کی اصل کنجی مکھیوں کی موسمی ہجرت ہے۔ سردیوں میں مشتاق اور دیگر مکھی بان اپنی کالونیوں کو راجستھان لے جاتے ہیں، جہاں سرسوں کے کھیت اور جنگلات نئے پھولوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مختلف ذائقوں کا شہد تیار ہوتا ہے۔
سرسوں کا شہد، جنگلی شہد اور سب سے قیمتی کشمیر کا اکیشیا شہد۔ ہر بوتل میں موسم اور مٹی کا الگ ذائقہ محفوظ رہتا ہے۔
رامہامہ کی یہ کہانی اب صرف مشتاق تک محدود نہیں رہی۔
آج درجنوں نوجوان، جو کبھی روزگار کی تلاش میں سرگرداں تھے، شہد کے کاروبار سے جڑ چکے ہیں۔ ہولیسٹک اگریکلچر ڈیولپمنٹ پروگرام کی بدولت 100 سے زیادہ نوجوان مگس بانی میں روزگار حاصل کر چکے ہیں اور نئے افراد کے لیے محض 35 ڈبوں سے سبسڈی کے ساتھ کاروبار شروع کرنا ممکن بنا ہے۔
کھلے آسمان تلے جب سورج کی روشنی میں مکھیوں کی قطاریں پھولوں سے رس چوستی اور ڈبوں کے گرد منڈلاتی ہیں تو مستقبل مزید روشن محسوس ہوتا ہے۔ مشتاق مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی دودھ پتھری جیسے سیاحتی مقامات دوبارہ کھلیں گے، مقامی شہد کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہو گا۔‘
رامہامہ میں آج شہد کی بھنبھناہٹ محض پس منظر کی آواز نہیں، بلکہ خوشحالی کی نئی دھن ہے جو ہر گھر میں گونج رہی ہے۔