حاملہ بیوی کو کہاں لے جاؤں، 40 سال سے مقیم افغان پناہ گزین کا سوال

گذشتہ 40 برس سے کراچی میں مقیم افغان پناہ گزین موسیٰ اپنی حاملہ اہلیہ کو افغانستان لے جانے سے خوفزدہ ہیں۔ ان کے خیال میں وہاں طبی سہولتوں کی کمی ہے۔

کراچی کی افغان بستی کے نیم پختہ مکان کے صحن میں دو معصوم بیٹیوں کے ساتھ کھیلتے موسیٰ پریشان ہیں کہ ان کی حاملہ بیوی کی افغانستان میں مناسب طبی دیکھ بحال کیسے ممکن ہو پائے گی۔

گذشتہ 40 برس سے پاکستان میں مقیم موسیٰ دوسرے افغان باشندوں کی طرح وطن جانے کی تیاری تو کر رہے ہیں، لیکن پریشانیاں دامن گیر ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ افغانستان میں ان کی اہلیہ کے لیے طبی سہولیات کا ممکنہ فقدان ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے موسیٰ کا کہنا تھا کہ ’میری بیوی آٹھ ماہ کی حاملہ ہے۔ یہ ہمارا تیسرا بچہ ہو گا۔ حکومت پاکستان کا حکم ہے وطن واپسی کا۔ میں اپنی بیوی کو کہاں لے کر جاؤں؟ افغانستان میں نہ مناسب ہسپتال ہے، نہ پیسہ، نہ سہولیات ہیں۔ مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی، بس یہی سوچتا ہوں کہ اگر بیوی کو کچھ ہو گیا یا بچہ نہ بچ سکا تو ذمہ دار کون ہوگا؟‘

پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں 30 جون 2025 تک ساڑھے 13 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود تھے۔

تاہم اسلام آباد کے افغانوں کو وطن واپس بھیجنے کے بڑے منصوبے پر عمل درآمد شروع ہونے سے قبل پاکستان میں افغانوں کی کل آبادی، بشمول غیر دستاویزی افراد، کا تخمینہ تقریباً 25 لاکھ یا اس سے زیادہ لگایا جاتا ہے۔ 

کچی سڑکوں اور تنگ گلیوں پر مشتمل افغان بستی میں مقیم موسیٰ کا کہنا تھا کہ ’میں ہر رات اپنی بیوی کو حوصلہ دیتا ہوں، تسلی دیتا ہوں۔ لیکن دل میں جانتا ہوں کہ ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔‘

موسیٰ کی بیوی کی ڈیلیوری کراچی کے بقائی ہسپتال ہونا طے ہے۔ لیکن اب انہوں نے افغانستان جانا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موسیٰ نے ٹوٹی ہوئی آواز میں کہا: ’نہ صرف میری بیوی کی جان کو خطرہ ہے بلکہ آنے والے بچے کی زندگی اور مستقبل بھی ایک بڑے سوالیہ نشان میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

’میں تو اپنی دو بچیوں کا مستقبل بھی پاکستان سے وابستہ کر چکا ہوں۔‘ 

موسی کی بیوی شکیلہ، جو بولنے میں دقت محسوس کر رہی تھیں، نے ایک صوتی پیغام میں اپنے جذبات کچھ یوں بیان کیے: ’مجھے بہت فکر ہے۔ یہ میرا تیسرا بچہ ہے۔ میں جانتی ہوں میری حالت خراب ہو سکتی ہے۔ نہ جگہ ہے، نہ پیسے، نہ کوئی امید۔ مجھے لگتا ہے میری جان جا سکتی ہے۔‘

موسیٰ نے حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہوئے کہا، ’ہمیں پاکستان سے محبت ہے۔ ہم نے کبھی افغانستان نہیں دیکھا۔ ہماری بچیوں کا روشن مستقبل اسی ملک سے جڑا ہے۔ انسانیت کے لیے ہمارے لیے رعایت کی جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا