پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بدھ کو اسلامی تعاون تنظیم کے افغانستان پر رابطہ گروپ کے اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو افغانستان میں امن اور استحکام کی واپسی کو پاکستان سے زیادہ چاہتا ہو کیونکہ ’ہمارے مستقبل ایک دوسرے سے جڑے‘ ہوئے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم کے افغانستان پر رابطہ گروپ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ’پاکستان ایک پُرامن اور خوشحال افغانستان کے لیے ہر ممکن کوششوں کی حمایت کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ ہدف اس وقت حاصل ہوگا جب طالبان حکام باہمی احترام، خلوص اور سیاسی عزم کا مظاہرہ کریں گے تاکہ ہم ان کی مدد کر سکیں۔‘
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات اور تعلقات حالیہ شدت پسندی کے باعث ایک بار پھر کشیدہ ہیں اور پاکستان مسلسل ان سے کالعدم تحریک طالبان کے خلاف کارروائی اور ان کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
تاہم افغانستان ان الزمات کو مسترد کرتا ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم کے افغانستان پر رابطہ گروپ کے اجلاس میں بھی پاکستانی نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے ملک میں حالیہ شدت پسندی کی جانب سے اشارہ کیا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ’پاکستان افغانستان میں سرگرم 24 سے زائد دہشت گرد تنظیموں پر گہری تشویش رکھتا ہے، بالخصوص ٹی ٹی پی، بی ایل اے، مجید بریگیڈ اور ETIM، جو القاعدہ کے ساتھ روابط رکھتے ہیں اور علاقائی و عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور شہری اب بھی افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے خلاف بڑی قربانیاں دے رہے ہیں۔
’رواں ماہ ہمارے سرحدی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے 12 پاکستانی فوجی جان سے گئے۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بھی دہشت گرد گروہوں کے پروپیگنڈے اور تشدد پر اکسانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، جو کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’پیش رفت کے لیے افغان حکام کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین کو ہمسایہ ممالک، خصوصاً پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘
رواں ماہ خیبر پختونخوا میں شدت پسندوں کے حملے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے افغان عبوری حکومت کو ’واضح پیغام‘ دیا تھا کہ وہ پاکستان مخالف ’دہشت گردوں‘ کی ’پشت پناہی‘ اور ’حمایت‘ یا پاکستان کے ساتھ تعلقات بنانے میں سے ایک راستے کا انتخاب کریں۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’میں افغانستان کی حکومت کو واضح پیعام دینا چاہتا ہو کہ وہ پاکستان کے ساتھ خلوص کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں تو آئیں ہم تیار ہیں لیکن اگر وہ دہشت گردوں کا ساتھ دینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں افغانستان کی عبوری حکومت سے کوئی سروکار نہیں۔‘
اب اسلامی تعاون تنظیم کے افغانستان پر رابطہ گروپ کے اجلاس میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ’میں تجویز پیش کرتا ہوں کہ اس رابطہ گروپ کے رکن ممالک کے ماہرین پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ قائم کیا جائے جو افغانستان کے مسائل کے حل کے لیے ایک عملی روڈ میپ اور باہمی اقدامات تجویز کرے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے مستقبل ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں اور یہ ناگزیر ہے کہ ہم مل کر ایسے افغانستان کی تعمیر کریں جو اپنے آپ اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ پُرامن ہو۔‘