محمود خان اچکزئی کی زیر قیادت وفد افغانستان بھیجنا کتنا مؤثر؟

تاہم افغانستان وفد بھیجنے یا پی ٹی آئی کی جانب سے وفد کی منصوبہ بندی کے حوالے سے وفاقی حکومت نے تاحال کوئی موقف نہیں دیا۔

تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما 16 ستمبر 2025 کو افغانستان کی عبوری حکومت کے سفیر سردار احمد شکیب ملاقات کر رہے ہیں (محمود خان اچکزئی فیس بک)

خیبر پختونخوا میں سیاسی رہنما تو سمجھتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کی قیادت میں پاکستانی وفد افغانستان بھیجنے کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے لیکن سابق افغان سفیر اور تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ’کوئی بڑا نتیجہ برآمد ہونے اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے زیادہ توقعات رکھنا حقیقت سے دور ہوگا‘۔

پاکستان میں تعینات افغانستان کی عبوری حکومت کے سفیر سردار احمد شکیب نے 16 ستمبر کو اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد قیصر کی دعوت پر ان کی رہائش گاہ پر دیگر رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی تھی جس میں تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کے سربراہ اور بلوچستان کے قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی بھی موجود تھے۔

ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق ہوا کہ محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں ایک ’سرکاری‘ وفد جلد افغانستان کا دورہ کرے گا۔

ملاقات کے بعد محمود خان اچکزئی کے فیس بک پیج سے جاری پریس ریلیز میں لکھا گیا کہ یہ دورہ پی ٹی آئی کے بانی سربراہ عمران خان کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ ’عمران خان کا پیغام افغان سفیر کو پہنچایا گیا اور پاکستان و افغانستان کے مابین دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے راستوں پر غور کیا گیا۔‘

عمران خان کے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے 16 ستمبر کو جاری پیغام میں افغانستان کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کے لیے محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں پی ٹی آئی کا وفد افغانستان بھیجنے کی ہدایت کی گئی۔

اس سے پہلے بھی عمران خان خیبرپختونخوا میں خراب سکیورٹی صورتحال کے پیشِ نظر بارہا وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو افغانستان جانے کی ہدایت دے چکے ہیں۔

تاہم افغانستان وفد بھیجنے یا پی ٹی آئی کی جانب سے وفد کی منصوبہ بندی کے حوالے سے وفاقی حکومت نے تاحال کوئی موقف نہیں دیا۔

حالیہ دنوں میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مختلف شدت پسندانہ کارروائیوں کے بعد پاکستان نے افغان طالبان کو سخت پیغام بھیجا ہے کہ وہ ’دہشت گردوں‘ کی ’پشت پناہی‘ یا پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔

وفد کتنا مؤثر ثابت ہوگا؟

تاہم محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں وفد افغانستان بھیجنے پر مبصرین کی رائے منقسم ہے۔ بعض مبصرین کے خیال میں اچکزئی کا انتخاب درست ہے، جبکہ دیگر اسے غیر مناسب قرار دے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کے ترجمان اور محمود خان اچکزئی کے قریبی ساتھی حسین اخندزاده نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عمران خان کی ہدایت سے کافی پہلے محمود خان اور دیگر رہنماؤں کو افغان سفیر کی جانب سے افغانستان آنے کی دعوت ملی تھی۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ انہیں خدشہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں اور اس کا اثر خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں پر زیادہ پڑے گا۔

حسین اخندزاده نے مزید کہا کہ ’فی الحال ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ افغانستان میں آئینی حکومت ہے یا نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں افغان طالبان کابل میں برسراقتدار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک جرگے کی شکل میں جائیں تاکہ پشتون علاقوں میں امن قائم کیا جا سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس میں شک نہیں کہ ہم اپنے نظریات پر سمجھوتہ کر رہے ہیں لیکن ہمارا مقصد امن کے لیے کوشش کرنا ہے۔ اب یہ مشاورت کی جائے گی کہ وفد میں کون شامل ہوگا اور امن کے لیے عملی اقدامات کیسے کیے جائیں۔‘

محمود خان اچکزئی افغان طالبان کو قابل قبول ہوں گے؟

محمود جان بابر پشاور میں مقیم صحافی ہیں اور پاکستان افغانستان تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ وفد پی ٹی آئی کا ایک سیاسی حربہ ہو سکتا ہے لیکن اس سے کوئی بڑا نتیجہ برآمد ہونے کی امید کم ہے۔

ان کے مطابق: ’یہ وفد تو افغانستان جائے گا لیکن وہاں مذاکرات میں ایسا کیا پیش کرے گا جو افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اس سلسلے میں محمود خان اچکزئی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوگا جب تک وفاقی حکومت اس پر راضی نہ ہو۔‘

محمود جان بابر نے مزید کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ افغان طالبان کو راضی کرنے کے لیے وہ کیا لے کر جائیں گے، یہی بنیادی نکتہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’محمود خان اچکزئی کے خیالات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور بحیثیت پشتون مشر ان کی بات سنی بھی جائے گی، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ان کے پاس کتنا اختیار ہوگا۔‘

دوسری جانب، 2017 سے 2019 تک اسلام آباد میں افغانستان کے نائب سفیر رہنے والے زردشت شمس سمجھتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کا انتخاب بہتر ہے کیونکہ 2021 کے بعد ان کا افغان طالبان کے بارے میں رویہ نرم اور مثبت رہا ہے۔

ان کے مطابق: ’محمود خان نے دیگر جماعتوں جیسے عوامی نیشنل پارٹی کی طرح افغان طالبان کی مخالفت نہیں کی اور ان کی تقریبات میں بھی شریک ہوئے ہیں۔ تاہم اس وفد سے سکیورٹی امور یا ٹی ٹی پی کے حوالے سے زیادہ توقعات رکھنا حقیقت سے دور ہوگا کیونکہ یہ وفد اس معاملے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔‘

زردشت شمس کے مطابق ایسے وفود پاکستان اور افغانستان کے مابین دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں، خاص طور پر تجارت اور افغان پناہ گزینوں کی نقل و حرکت جیسے معاملات میں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان