ایشیا کپ سے پہلے افغانستان کو شکست: کیا ٹیم فارم میں آ گئی؟

پاکستان کی فاسٹ بولنگ انڈیا سے بہتر ہے اور وراٹ کوہلی کی غیرموجودگی میں پاکستانی بولنگ مزید سر پر چڑھ سکتی ہے۔

انڈیا کے شہر کولکتہ میں 31 اکتوبر، 2023 کو پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان میچ میں پاکستانی شائقین اپنی ٹیم کو سپورٹ کرتے ہوئے (اے ایف پی)

متحدہ عرب امارات میں سہ فریقی سیریز میں پاکستان کی فتح نے ایشیا کپ سے قبل ٹیم کو یقینی طور پر اعتماد اور نئی طاقت عطا کی ہے۔ قومی ٹیم گذشتہ کئی ماہ سے اسی کے لیے سرگرداں تھی۔

اگرچہ افغانستان اور متحدہ عرب امارات کی ٹیمیں اتنی مضبوط نہیں ہیں کہ پاکستان کو شکست دے سکیں اس لیے اس ٹورنامنٹ کی اہمیت محض پریکٹس تک ہی محدود تھی لیکن چند دن قبل افغانستان نے جس طرح پاکستان کو شکست دی اس سے ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا تھا کہ کیا افغانستان کی ٹیم پاکستان سے بہتر ہو چکی ہے اور فائنل جیت سکتی ہے؟

شاید اس کا جواب جزوی ہاں میں ہی ہو کیونکہ پاکستان ٹیم دوسرے حریف متحدہ عرب امارات کے خلاف بھی ایک میچ میں پریشان ہوگئی تھی۔ پاکستان نے وہ میچ تو جیت لیا لیکن مخالف ہدف کے کافی قریب پہنچ گئی تھی۔ پاکستان کے پاس تجربہ کار بولرز تھے جو اس صورت حال سے نمٹنا جانتے تھے لیکن ایک پندرھویں درجہ کی ٹیم کی اتنی شاندار مزاحمت نے سب کو حیران کر دیا۔

افغانستان کے خلاف فائنل میں پاکستان خوش قسمت رہا کہ ٹاس جیت گیا کیونکہ اس سیریز میں ہدف کو عبور کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں رہا۔ فائنل میں بھی افغانستان ایک بظاہر قدرے آسان قابل ہدف تک نہیں پہنچ سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد نواز نے پچ کے مطابق بولنگ کی لیکن افغانستان کی بیٹنگ بھی کمزور رہی۔ ابراہیم زدران نے اگرچہ سب سے زیادہ 194 رنز بنائے لیکن عبدالرحمن گرباز پوری سیریز میں ناکام رہے۔

افغانستان کی ٹیم صرف ان دو بلے بازوں پر بھروسہ کرتی ہے جو جلدی آؤٹ  اور پھر ان کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔۔

پاکستان ٹیم کتنی مضبوط ہے؟

ایشیا کپ میں اب چند دن باقی ہیں۔ اتوار کو پاکستان انڈیا کے خلاف کھیلے گا جو اس ایشیا کپ کی جان مقابلہ ہے۔ معمول کے مطابق اس میچ پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ لیکن اس موقع پر پاکستان ٹیم کہاں کھڑی ہے؟ کیا اس نے اتنی طاقت حاصل کر لی ہے کہ انڈین ٹیم کا مقابلہ کرسکے؟

پاکستان کی بیٹنگ اس سہ فریقی سیریز میں بھی مشکلات کا شکار رہی ہے۔ اوپنرز عدم تسلسل کے باعث کسی بھی میچ میں کوئی خاص آغاز نہ دے سکے۔ صائم ایوب پانچ میچوں میں 111 رنز بناسکے جبکہ دوسرے اوپنر صاحبزادہ فرحان نے 63 رنز بنائے  جس سے ان کی کارکردگی ظاہر ہوتی ہے۔ اہم بیٹنگ کپتان سلمان علی آغا اور محمد نواز کی رہی جنہوں نے متعدد بار ٹیم کو سہارا دیا۔ دونوں کی ذمہ دارانہ بیٹنگ قابل ذکر اور حوصلہ افزا رہی۔ 

محمد حارث اور حسن نواز مکمل ناکام رہے۔ دونوں کی تکنیکی کمزوریاں اب کھل کر سامنے آگئی ہیں۔ حارث نے جس قدر بدترین کارکردگی دکھائی اس کے بعد ان کا ٹیم میں رہنا اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ ٹیم اقربا پروری کا شکار ہے۔

حارث کو کھلانا شاید کپتان کی مجبوری ہو کیونکہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی ’گڈ بک‘ میں ہیں اور بابر اعظم پر تنقید کرکے ان پر الزام ہے کہ وہ مزید میر جعفر بن چکے ہیں۔ اس لیے یہ مبینہ نوازشات ان کا حق ہے ورنہ ان جیسی کارکردگی کے کسی بھی کھلاڑی کو سیلیکٹرز دس سال تک گنتی میں بھی نہیں لاتے لیکن حارث کو ’بابر کے خلاف بات کرو اور جگہ بناؤ‘ والا فارمولا مل گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صائم ایوب کی فارم بھی تنزلی کا شکار ہے۔ انہیں زبردستی محمد حفیظ بنانے کے چکر میں ان کا اصل ٹیلنٹ برباد کیا جا رہا ہے۔ بولنگ میں دو چار وکٹ لے کر وہ خود کو آل راؤنڈر سمجھنے لگے ہیں اور جدید حفیظ بھی لیکن وہ اپنے اصل کام یعنی بیٹنگ سے غافل ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے پہلے انہیں سعید انور بنا کر برباد کیا اور اب حفیظ بنا کر مزید تباہی کر رہے ہیں۔ 

فخر زمان کی فارم بھی غیرتسلی بخش ہے۔ اپنے روایتی شاٹس کے نہ لگنے پر وہ دباؤ میں آ رہے ہیں۔ حسن نواز کے بھی بلائنڈ شاٹ نہیں لگ رہے ہیں۔ وہ بیٹنگ کی بنیادی تکنیک سے بظاہر ناواقف ہیں اس لیے مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔   مڈل آرڈر میں سلمان آغا کی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن ان کا سست انداز زیادہ اثر نہیں رکھتا ہے۔

پاکستانی بولرز کو اس سیریز میں کسی تجربہ کار حریف کا سامنا نہیں تھا لیکن جب انڈیا اور سری لنکا سے مقابلہ ہوگا تب اصل نتیجہ سامنے آئے گا۔ افغانستان کے خلاف فائنل میں نواز اور ابرار نے اچھی بولنگ کی۔ ان کی اس بولنگ پر انڈین ٹیم فکر مند ہوگی کیونکہ اگر اتوار کی پچ میں سپن ہوا تو انڈین بیٹنگ ڈگمگا سکتی ہے۔

پاکستان کی فاسٹ بولنگ بھی انڈیا سے بہتر ہے اور ویراٹ کوہلی کی غیر موجودگی میں پاکستانی بولنگ مزید سر پر چڑھ سکتی ہے۔   

ایشیا کپ میں امکانات

پاکستان ٹیم انڈیا کے ساتھ گروپ اے میں ہے جہاں دوسری دو کمزور ٹیمیں رکھی گئی ہیں جس کا مقصد واضح ہے کہ براڈکاسٹرز پاکستان اورانڈیا کا فائنل دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک گروپ میں ہونے سے دونوں ٹیمیں کوئی ناک آؤٹ میچ نہیں کھیلیں گی۔

انڈیا کی ٹیم بہت متوازن اور مضبوط نظر آتی ہے۔ جسپریت بمرا اور شبمن گل کی شمولیت سے تجربہ موجود ہوگا جبکہ رنکو سنگھ اور ابھیشک شرما کی صورت میں خطرناک بلے باز ہوں گے۔ کپتان سوریا کمار یادو اور ہارڈک پاندھیا کی موجودگی مزید مضبوط بنا رہی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں نے آخری ٹی ٹوئنٹی میچ 2021 میں کھیلا تھا اور وہ پاکستان اطمینان سے جیت گیا تھا۔ لیکن اس ٹیم کے اگر روہیت شرما اور کوہلی نہیں ہیں تو اس میچ کے اکیلے فتح گر بابر اعظم اور محمد رضوان بھی عتاب کا شکار ہیں۔ 

دونوں ٹیمیں کسی حد تک نئی بھی ہیں اور زیادہ پرجوش بھی !!!

اس میچ سے قبل پاکستان اومان سے جمعہ کو میچ کھیلے گا جس میں پاکستان بھرپور طاقت کے ساتھ اپنی دھاک بٹھا سکتا ہے۔

پاکستان کے کوچ مائیک ہیسن نے ایشیا کپ سے قبل ایک عجیب دعوی کیا ہے کہ ان کی کپتانی میں ٹیم بہت اوپر جاچکی ہے اور جیت کا تناسب زیادہ ہے لیکن وہ بھول گئے کہ وہ بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز سے سیریز ہار چکے ہیں حالانکہ دونوں ٹیمیں کافی عرصہ سے خراب درجہ کی کارکردگی دکھا رہی ہیں۔

مائیک کے آنے کے بعد سے ٹیم کی کارکردگی خراب ہورہی ہے لیکن پی سی بی کے نئے فارمولے نے انہیں بااعتماد کر دیا ہے کہ ہار جیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اس لیے نتیجہ پر فکر مند ہونا ضروری نہیں۔

مائیک ہیسن اب سلیکشن کے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں اس لیے وہ بلاشرکت غیرے تمام اختیارات کے مالک ہیں۔

ایشیا کپ کے آغاز سے ایک بھرپور اور پرکشش کرکٹ شروع ہو جائے گی لیکن یہ امر تعجب خیز ہے کہ بھارت بنا مزاحمت کے اس میں شامل ہو رہا ہے۔ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں وہ نامعلوم نہیں حالانکہ آخری وقت تک اس کی شمولیت پر شکوک تھے!!

کیا پاکستان 2021 کی کارکردگی دوہرا سکے گا؟ اس کا جواب تو اتوار کو ہی ملے گا لیکن وقت سے پہلے سب کی نظر میں انڈیا فیوریٹ ہے۔ 

سیانے کہتے ہیں کہ بعض اوقات اس وقت بارش ہوجاتی ہے جب بادلوں کا نام و نشان نہیں ہوتا تو ایشیا کپ میں پاکستان کی فتح افق پر نہیں لیکن بارش پھر بھی ہوسکتی ہے کیونکہ میدان میں وہی کامیاب ہوتے ہیں جو آخری وقت تک لڑتے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ