بگرام فوجی اڈہ، افغان طالبان کی ’نہ واضح نہ اور نہ ہاں‘

طالبان حکومت کے ایک مختصر بیان میں امریکہ کی جانب سے زبردستی فوجی اڈے لینے کی مخالفت میں تو بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن اڈہ دینے یا نہ دینے کی بابت کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بگرام فوجی اڈے سے متعلق حالیہ بیانات پر افغانستان کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایک جانب اعلی سرکاری اہلکار جن میں فوج کے سربراہ بھی شامل ہیں کھل کر بیس کسی کو دینے کی مخالفت کر رہے ہیں تو دوسری جانب اس سلسلے میں سب سے اہم بیان شاید ’امارتِ اسلامیہ افغانستان‘ کا اعلامیہ ہے۔

مبصرین کے خیال میں طالبان حکومت کے اس مختصر بیان میں امریکہ کی جانب سے زبردستی فوجی اڈے لینے کی مخالفت میں تو بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن اڈہ دینے یا نہ دینے کی بابت کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔

کابل سے جاری بیان کے مطابق ’ماضی میں امریکہ کے ساتھ تمام دوطرفہ مذاکرات میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ امارتِ اسلامیہ کے لیے افغانستان کی خودمختاری اور ارضی سالمیت ہر چیز سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔‘

سینئیر صحافی سمیع یوسفزئی کے مطابق ’افغان طالبان جانتے ہیں کہ ٹرمپ ایسی شخصیت ہیں جن کا یہ غیرمعمولی ردعمل ابھی جانچ کے مرحلے میں ہے۔ طالبان یہ دیکھ رہے ہیں کہ آیا ٹرمپ کے بیانات کو محض کاروباری سودے بازی کے انداز میں لیا جائے یا اس پر زیادہ سخت ردعمل دیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں طالبان نے پاکستان کے وزیرِ اعظم کے بیانات پر کوئی ردعمل نہیں دیا، اور اب وہ ٹرمپ کے بیانات کو کم کرکے پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان ایسے بیانات کے اثرات پر فکر مند اور پریشان ہیں۔‘

’جہاں تک بگرام کا تعلق ہے، ایک میٹر بھی افغان زمین (طالبان سربراہ) دینا ہیبت اللہ کے لیے ممکن نہیں۔ اس لیے ٹرمپ کے بیانات امریکی اداروں کے موقف کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے اور عملی طور پر ممکن بھی نہیں لگتے۔ اگر امریکہ بگرام واپس چاہے تو یہ آسان سودا نہیں ہوگا۔ ٹرمپ کا طریقہ کار ہمیشہ پیسہ بچائیں، خرچ نہ کریں رہا ہے۔‘

افغانستان کے صوبے پروان میں واقع بگرام ایئر بیس، دارالحکومت کابل کے شمال میں تقریبا 60 کلومیٹر کی دوری پر ایک وسیع میدانی علاقے میں قائم ہے۔

افغان طالبان حامی سوشل میڈیا اکاونٹس تاہم کھل کر ’افغانستان کی ایک انچ زمین بھی کسی کو دینے سے انکار کر رہے ہیں۔‘

بگرام اڈے کی بنیاد سوویت دور میں رکھی گئی تھی، اور یہ 2001 کے بعد سے امریکی فوج کی بڑی بیس رہی ہے۔

ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے کو افغان طالبان کے زیر انتظام ’بگرام ایئربیس واپس نہ کرنے کی صورت میں‘ افغانستان کو برے نتائج کی دھمکی دی تھی۔

انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر پوسٹ میں کہا تھا ’اگر افغانستان نے بگرام ایئر بیس ان لوگوں کو واپس نہیں دی، جنہوں نے اسے بنایا تھا، یعنی کہ امریکہ تو اس کے برے نتائج سامنے آئیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

البتہ طالبان کے پالیسی بیان میں امریکہ کو یاد دلایا گیا کہ دوحہ معاہدے میں اس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ’افغانستان کی ارضی سالمیت اور سیاسی خودمختاری کے خلاف طاقت یا دھمکی کا استعمال نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کے داخلی امور میں مداخلت کرے گا‘، اس لیے ضروری ہے کہ واشنگٹن اپنے ان وعدوں کی پابندی کرے۔

اس ریاستی پالیسی بیان میں ایک بار پھر یاددہانی کرائی گئی کہ (امریکہ یا کوئی ملک) ماضی کے ناکام تجربات کو دہرانے کی بجائے عقل مندی اور حقیقت پسندی کی پالیسی اپنائے۔ ’امارتِ اسلامیہ افغانستان شرعی اصولوں کی روشنی میں اپنی متوازن اور معیشت محور خارجہ پالیسی کے تحت تمام ممالک کے ساتھ دوطرفہ اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر مثبت تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔‘

البتہ طالبان کے آرمی چیف فصیح الدین فطرت نے افغانستان انٹرنیشنل چینل کے مطابق افغان فضائیہ کے کیڈٹس کی گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بیان میں یاد دلایا کہ بہت سے افغانوں کو گوانتانامو، بگرام اور پل چرخی کی جیلوں میں بھیجا گیا تھا، جہاں انہیں ’جسمانی اور نفسیاتی مصائب‘ کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ کبھی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے۔

ٹرمپ نے یہاں تک کہا کہ ’ہم اس بارے میں افغانستان سے بات کر رہے ہیں۔‘ تاہم انہوں نے ان نام نہاد مذاکرات کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ طالبان نے تاہم باظابطہ طور پر امریکہ سے فوجی اڈے کے مستقبل پر بات چیت کی نہ تو تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔

اگرچہ امریکہ اور طالبان کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں، لیکن فریقین یرغمالیوں کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں۔ طالبان نے گذشتہ دنوں ٹرمپ کے خصوصی ایلچی برائے یرغمالیوں کے معاملات، ایڈم بوہلر کی کابل میں اپنے نائب وزیر اعظم ملا برادر اخوند اور وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ ملاقاتوں کی تصاویر جاری کی تھی۔ ان ملاقاتوں میں سابق امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد بھی موجود تھے۔

طالبان نے رواں سال مارچ میں ایک امریکی شہری کو رہا کیا تھا جو دو سال سے زائد عرصہ قبل افغانستان میں سیاحت کے دوران اغوا ہوا تھا۔

جب ایک رپورٹر نے امریکی صدر سے پوچھا کہ کیا وہ بگرام پر قبضے کے لیے امریکی فوج تعینات کرنے پر غور کریں گے تو انہوں نے کہا ’ہم اس پر بات نہیں کریں گے۔ ہم اسے واپس چاہتے ہیں اور فوراً چاہتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ میں کیا کرنے والا ہوں۔‘

طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اتوار کو ٹرمپ کے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے ’امارات اسلامی افغانستان‘ کا ہی بیان سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے سوالات کے جواب میں مجاہد نے یہ وضاحت نہیں کی کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بگرام کے بارے میں واقعی بات چیت ہوئی ہے اور ٹرمپ کو کیوں یقین ہے کہ امریکہ اسے دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔

گذشتہ برس اگست میں طالبان نے بگرام پر اپنے قبضے کی تیسری سالگرہ امریکی فوجی سازوسامان کی شاندار نمائش کے ساتھ منائی تھی۔ افغان طالبان نے امریکی انخلا کے بعد بگرام کو مال غنیمت کے طور پر بڑہ فخر سے پیش کیا ہے۔

گذشتہ ہفتے برطانیہ کے سرکاری دورے کے دوران ٹرمپ نے یہ عندیہ دیا کہ طالبان، جو 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے معاشی بحران، بین الاقوامی تسلیم نہ ہونے، اندرونی اختلافات اور حریف عسکری گروہوں جیسے مسائل سے دوچار ہیں، امریکہ کو فوجی طور پر واپس آنے کی اجازت دینے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا