بگرام ایئر بیس پر امریکہ اور چین کے بیانات: اس اڈے کی اہمیت کیا ہے؟

اگرچہ افغان حکمرانوں نے اس پر باضابطہ طور پر کچھ نہیں کہا تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق یہ امریکہ کا ایک ’دباؤ کا ہتھکنڈا‘ ہے، جس سے وہ خطے میں ’طاقت کا توازن‘ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

14 اگست 2024 کو بگرام ایئر بیس پر طالبان کے افغانستان پر قبضے کی تیسری سالگرہ منانے کے لیے طالبان کی فوجی گاڑیوں کی پریڈ جاری ہے (احمد ساحل ارمان/ اے ایف پی)

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے ایک بار پھر افغانستان میں واقع بگرام ایئر بیس واپس لینے کا عندیہ دیا، جس پر چین نے اپنے ردعمل میں ’ٹکراؤ کی فضا کی حمایت نہ کرنے‘ کا عزم دہرایا، اگرچہ افغان حکمرانوں نے اس پر باضابطہ طور پر کچھ نہیں کہا تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق یہ امریکہ کا ایک ’دباؤ کا ہتھکنڈا‘ ہے، جس سے وہ خطے میں ’طاقت کا توازن‘ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 18 ستمبر کو برطانیہ کے دورے کے موقعے پر پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ امریکہ افغانستان میں بگرام ایئر بیس کو واپس لینا چاہتا ہے۔

اس کی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بتائی کہ بگرام دنیا کا سب سے بڑا ایئر بیس ہے اور ’ہم نے اس بیس کو بغیر کسی وجہ کے چھوڑ دیا۔‘

ٹرمپ نے بتایا: ’بگرام واپس لینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ چین سے ایک گھنٹے کی دوری پر ہے۔‘

اسی طرح کا ایک بیان ٹرمپ نے رواں سال فروری میں بھی دیا تھا، جب انہوں نے جو بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ بگرام ایئر بیس واپس لیں گے کیونکہ یہ چین کے جوہری ہتھیاروں کے مقام سے ایک گھنٹہ دوری پر ہے۔

افغانستان کے صوبے پروان میں واقع بگرام ایئر بیس، چین کے صوبے سنکیانگ سے تقریباً 500 کلومیٹر دور ہے۔

بگرام ایئر بیس کے حوالے سے ٹرمپ کے بیان پر جمعے کو چینی وزارتِ خارجہ کی بریفنگ کے دوران ترجمان لین جیان نے بتایا کہ چین افغانستان کی خود مختاری، آزادی اور سالمیت کا احترام کرتا ہے۔

بقول لین جیان: ’خطے میں پریشانی اور ٹکراؤ کی فضا کی حمایت نہیں کی جائے گی اور ہمیں امید ہے کہ تمام فریقین خطے کے امن اور پائیداری کے لیے کردار ادا کریں گے۔‘

امریکی صدر کے بیان پر چین کا ردعمل تو سامنے آ گیا، تاہم ابھی تک افغان طالبان کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن افغان وزارتِ خارجہ کے ایک عہدیدار نے اس پر بات کی ہے۔

افغانستان کی وزارتِ خارجہ کے سیکنڈ پولیٹیکل ڈائریکٹر ذاکر جلالی نے ایکس پر پوسٹ کیے گئے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ امریکہ افغانستان کے ساتھ مشترکہ اقتصادی مفادات کے لیے تعلقات بنائے۔

تاہم ذاکر جلالی کا کہنا تھا کہ امریکہ یہ تعلقات افغانستان میں اپنی کسی فوجی موجودگی کے بغیر قائم کرے۔

ذاکر جلالی نے لکھا: ’ڈونلڈ ٹرمپ ایک کامیاب تاجر ہیں اور انہوں نے یہ بات بھی ایک مقصد کے تحت کی ہے لیکن افغانوں نے بیرونی فوج کو تاریخ میں کبھی نہیں مانا ہے اور یہ امید دوحہ معاہدے کے بعد ختم ہو گئی ہے لیکن باقی معاملات کے دروازے کھلے ہیں۔‘

بگرام ایئر بیس پر رواں سال فروری میں بھی بحث ہوئی تھی، جب یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ امریکہ کا جنگی طیارہ بگرام ایئر بیس پر اترا ہے۔

اس وقت افغان طالبان نے تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بگرام ایئر بیس چین یا امریکہ کے پاس نہیں بلکہ افغان فورسز کے پاس ہے اور اس بیس میں ایک چینی فوجی بھی موجود نہیں ہے۔

بگرام ایئر بیس کی امریکہ و چین کے لیے کیا اہمیت ہے؟

سویڈن میں مقیم اور افغانستان سمیت جنوبی ایشیا میں شدت پسند تنظیموں اور سکیورٹی امور پر کئی تحقیقی مقالے لکھنے والے عبدالسید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغان طالبان کے حکام کے مطابق ٹرمپ کا بگرام ایئر بیس کا مطالبہ ایک ’دباؤ کا ہتھکنڈا‘ قرار دیا جاتا ہے، جس کے ذریعے ٹرمپ طالبان پر دباؤ ڈال کر اپنے دیگر مطالبات منوانا چاہتے ہیں۔

عبدالسید نے بتایا، ’بگرام ایئر بیس واقعی خطے میں امریکی موجودگی کے لیے کافی سٹریٹیجک اہمیت رکھتا ہے مگر طالبان کی موجودگی میں امریکہ کا یہ مطالبہ مکمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔‘

امریکہ یا کسی غیر ملکی فوج کو افغانستان میں قیام کی اجازت طالبان کے لیے عبدالسید کے مطابق ’سیاسی موت‘ کے مترادف ہے، جو ان کی دو دہائیوں پر محیط امریکہ و اتحادی افواج کے خلاف جنگ کے بیانیے کو صفر کر دیتا ہے۔

چین کے ردعمل کے حوالے سے عبدالسید نے بتایا کہ چین کا امریکی صدر کے مطالبے پر ردعمل کوئی غیر متوقع بیان نہیں کیونکہ صدر ٹرمپ نے بگرام ایئر بیس کے کنٹرول کا مقصد دراصل چین کے خلاف خطے میں ایک اہم امریکی اڈے کے قیام کے طور پر ظاہر کیا ہے۔

امریکہ کے غیر سرکاری تحقیقی ادارے ’اورین پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ کی جانب سے 2024 میں شائع ایک تحقیقی مقالے میں درج ہے کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان میں دوبارہ موجودگی کے لیے بگرام ایئر بیس کی اہمیت زیادہ ہے۔

مضمون میں لکھا گیا ہے کہ طالبان کے تین سینیئر رہنماؤں کے ناموں کو کچھ عرصہ پہلے پابندیوں کی فہرست سے ہٹانے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امریکہ طالبان سے تعلقات کی بہتری کے لیے کوشش کر رہا ہے۔

تاہم مضمون کے مطابق امریکہ کے لیے افغانستان میں نام نہاد داعش، القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی ایک مسئلہ ہے۔

مضمون میں لکھا گیا ہے: ’امریکہ اگر افغانستان میں اپنا سفارت خانہ کھولنا چاہتا ہے تو اس کے لیے بگرام ایئر بیس کی ضرورت ہوگی تاکہ امریکیوں کے لیے کسی بھی خطرے کے پیشِ نظر بگرام اڈے کو استعمال کیا جا سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری وجہ مضمون کے مطابق یہ ہے کہ امریکہ کی دوسری عالمی جنگ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ مختلف خطوں میں اپنے مفادات کے لیے موجودگی یقینی بنانا چاہتا ہے۔

تاہم بگرام ایئر بیس کو 2021 میں چھوڑنے کے بعد وسطی ایشیا میں اس کی فوجی موجودگی نہیں ہے اور بگرام ایئر بیس چین کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ایک قریبی جگہ ہے۔

مضمون کے مطابق: ’امریکہ کی موجودہ وقت میں چین کے سب سے قریب فوجی موجودگی جاپان، فلپائن اور بحرالکاہل کے خطے میں ہے۔ چین کے سب سے قریب فلپائن میں امریکی فوجی ہیں، جو چین سے تقریباً ساڑھے چار ہزار کلومیٹر کی مسافت پر ہیں جبکہ بگرام چین سے تقریباً 500 کلومیٹر دور ہے۔‘

ڈاکٹر عرفان اشرف دفاعی امور کے ماہر اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے پروفیسر ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ بگرام ایئر بیس سے صرف امریکہ نہیں بلکہ اسرائیل کے مفاد بھی جڑے ہیں۔

عرفان اشرف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دنیا کے ورلڈ آرڈر میں تبدیلی جاری ہے، جس کا محور چین ہے، اگرچہ امریکہ اور اسرائیل کا غلبہ موجودہ وقت میں زیادہ ہے۔

انہوں نے بتایا: ’امریکہ کبھی بھی چین کے قریب براہ راست نہیں جائے گا کیونکہ چین کیپٹلزم کی طرف گیا ہے اور مارکیٹ پر ان کا غلبہ موجود ہے، تاہم مختلف طریقوں سے امریکہ چین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔‘

عرفان اشرف کا کہنا تھا کہ بگرام ایئربیس اسی تناظر میں اہمیت کا حامل ہے کیونکہ امریکہ اور اسرائیل دونوں اس سے چین اور ایران کو قابو کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ ’بیلنس آف پاور‘ امریکہ کے پاس رہے گا۔

عرفان اشرف کے مطابق: ’بگرام ایئر بیس کا امریکہ کے ہاتھ میں آنا پاکستان پر بھی دباؤ بڑھائے گا اور سٹیٹ آف ہرمز (جہاں سے دنیا کی ایک بڑی مقدار میں تیل سپلائی کیا جاتا ہے) کو مزید محفوظ کرنے کے لیے بھی اہم ہے۔‘

لیکن کیا افغان طالبان بگرام دینے پر راضی ہوں گے؟ اس سوال کے جواب میں عرفان اشرف کا کہنا تھا کہ ’طالبان حکومت کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہے کیونکہ وہ اتنی مضبوط نہیں ہے کہ امریکہ کے سامنے کھڑی ہو سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان