پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان سے کارروائی کرنے والے ’دہشت گرد‘ گروپ اس کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد کا کہنا ہے کہ یہ ’دہشت گرد‘ پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے جسمانی اور ڈیجیٹل دونوں نیٹ ورکس استعمال کر رہے ہیں۔
پاکستان نے ان نیٹ ورکس کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی پر زور دیا ہے۔
عاصم افتخار احمد نے منگل کو افغانستان پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں بتایا کہ القاعدہ، داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم) اور بلوچ علیحدگی پسند گروپ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ سرحد پار سے بدستور بلاروک ٹوک سرگرم ہیں۔
انہوں نے کہا ’ہمارے پاس ان گروہوں کے درمیان تعاون کے قابل اعتماد شواہد موجود ہیں، جن میں مشترکہ تربیت، غیرقانونی اسلحے کی خرید و فروخت، دہشت گردوں کو پناہ دینا اور مربوط حملے شامل ہیں۔‘
پاکستان کے مندوب کے مطابق افغٖانستان میں 60 سے زائد ’دہشت گرد‘ کیمپ کام کر رہے ہیں، جو پاکستان کے اندر شہریوں، سکیورٹی فورسز اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
مندوب نے کہا کہ خطرہ سائبر سپیس تک پھیلا ہوا ہے جہاں افغان آئی پی ایڈریسز سے منسلک لگ بھگ 70 پروپیگنڈا اکاؤنٹس انتہا پسندانہ پیغامات پھیلا رہے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’ان نیٹ ورکس پر قابو پانے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا حکومتوں کے ساتھ مکمل تعاون ضروری ہے۔‘
اجلاس کو ایک افغان سول سوسائٹی کی رکن حنیفہ اگروال نے خطاب بھی کیا اور حقوق انسانی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوتنبائیوا نے سلامتی کونسل کو ملکی حالات سے آگاہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے ملک اور عالمی برادری کے مابین تعاون کی راہ نکال لی جائے گی جس سے وہاں خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
افغان دارالحکومت کابل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تین سال قبل جب وہ افغانستان پہنچیں تو وہاں عبوری حکام میں دو طرح کے رجحانات پائے جاتے تھے۔
ایک حلقہ افغان عوام کی ضروریات کو ترجیح دینے کا حامی تھا تو دوسرا خالص اسلامی نظام کے قیام پر زور دیتا تھا۔
'یو این ویمن' کے مطابق افغان عوام کی اکثریت لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی مخالف ہے جبکہ عالمی بینک نے کہا ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے افغان معیشت کو سالانہ 1.4 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اوتونبائیووا نے کہا کہ مردوخواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں پر عائد کی جانے والی بڑھتی ہوئی پابندیوں اور ان پر عمل درآمد سے عوام میں عبوری حکام کے خلاف بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔
ملک کو رواں سال انسانی امداد میں تقریباً 50 فیصد کٹوتی کا سامنا ہے اور اگلے سال اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔
یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ کٹوتیاں جزوی طور پر افغانستان کی خواتین مخالف پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
ملکی معیشت اب بھی مشکلات کا شکار ہے اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے بڑی تعداد میں مہاجرین کی واپسی کے نتیجے میں اس پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔
ملک کو خشک سالی اور دیگر موسمیاتی حوادث کا سامنا بھی ہے، جس سے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔
آئندہ برسوں میں 60 لاکھ آبادی پر مشتمل دارالحکومت کابل دنیا کا ایسا پہلا بڑا شہر بن سکتا ہے جہاں پانی ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر سلامتی کونسل کی 1267 پابندی کمیٹی سے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دینے کی درخواست کی۔
انہوں نے کونسل پر زور دیا کہ وہ ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے اس درخواست پر فوری عمل کرے۔
انہوں نے ٹی ٹی پی کی طرف بھی اشارہ کیا اور اسے افغان سرزمین پر سرگرم بڑی اقوام متحدہ کی نامزد کردہ سب سے بڑی تنظیم قرار دیا جس میں تقریباً چھ ہزار ہزار عسکریت پسند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ طالبان کی چار سالہ حکمرانی نے کئی دہائیوں کی خانہ جنگی کا خاتمہ کیا، لیکن ملک اب بھی پابندیوں، غربت، منشیات اور انسانی حقوق کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ کے انسانی ضروریات اور امداد کے 2025 کے منصوبے کے لیے درکار 2.42 ارب ڈالر میں سے صرف 27 فیصد فنڈز ملے۔
عاصم افختار نے کونسل کو یاد دلایا کہ پاکستان نے چار دہائیوں سے زائد عرصے تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی۔ اس دوران بین الاقوامی امداد ناکافی رہی۔