کراچی میں افغان پناہ گزین کیمپ میں ان دنوں عارضی بازار لگا ہوا ہے جہاں افغان شہری اپنا ذاتی سامان بیچتے ہیں۔ دن چڑھتے ہی یہ علاقہ ایک بازار میں تبدیل ہو جاتا ہے اور شام تک یہاں خریداروں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔
ملک بدری کے حکومتی فیصلے کے بعد افغان پناہ گزین اپنے وطن جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے بھی ایک ایسے کیمپ کا رخ کیا جہاں سڑک کنارے افغان پناہ گزین فریج، پنکھے، گدے، برتن اور دیگر گھریلو سامان فروخت کرنے کی غرض سے بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ پناہ گزین دن چڑھتے ہی عارضی بازار لگا لیتے ہیں اور شام تک یونہی سامان بیچتے رہتے ہیں، جنھیں مقامی افراد سستے داموں خرید کر لے جاتے ہیں۔
بازار کے اس ہجوم میں عبدالخالق بھی اپنا ایئر کولر لیے بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی اور وہ مناسب خریدار کے انتظار میں تھے۔
عبدالخالق نے اپنی آب بیتی انڈپینڈنٹ اردو کو سناتے ہوئے کہا: ’یہ میرے لیے صرف گھریلو سامان ہی نہیں بلکہ میرے اور میرے بچوں کے خواب ہیں۔ ہم نے یہ خواب دیکھے، ان کے لیے محنت مزدوری کی اور گھر سجایا۔ اب میں اپنے خواب سڑک پر بیچنے پر مجبور ہوں۔‘
انہوں نے نم آنکھوں سے بتایا: ’گرمیوں میں میرے بچوں نے مجھ سے فریج کی خواہش کی تھی تاکہ وہ ٹھنڈا پانی پی سکیں۔ اسی طرح ان کی ضد پر میں نے کولر پنکھا خریدا۔ اب یہ تمام سامان کوڑیوں کے داموں بیچ رہا ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میرے بچے پوچھتے ہیں کہ آپ سامان بیچ دو گے تو ہم دوبارہ انہیں کیسے خریدیں گے؟ سوچیں، میرے بچوں کو اس وقت کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی۔‘
عبدالخالق کے مطابق، ابھی ملک بدری کی پریشانی اپنی جگہ تھی کہ ٹرانسپورٹرز نے کرایہ دگنا کر کے تین لاکھ کر دیا۔ اب نہ ہم پاکستان میں رہ سکتے ہیں اور نہ ہی افغانستان جانے کے لیے کچھ رقم جیب میں ہے۔
حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 15 ستمبر 2023 سے اب تک 14 لاکھ 60 ہزار افغان شہری پاکستان سے واپس افغانستان جا چکے ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ 12 ہزار کو باقاعدہ طور پر ملک بدر کیا گیا ہے۔
ایک اور افغان پناہ گزین جاوید بھی عارضی بازار میں اپنا فرنیچر اور موٹر سائیکل بیچ کر وطن واپسی کی تیاری کر رہے تھے۔
چونکہ جاوید کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی، اس لیے ان کے لیے پاکستان چھوڑنا کسی غم سے کم نہیں ہے۔
کسی گہری سوچ سے نکلتے ہوئے جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ انسانیت کے خلاف ہے کہ میں یہیں پیدا ہوا، یہیں پلا بڑھا اور اپنا سب کچھ کراچی میں بنایا جہاں میرا خاندان 40 سال سے رہائش پذیر تھا۔ آج ہمیں ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ میں افغانستان سے واقف نہیں ہوں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں اپنی خوشیاں اور اپنی محنت سے بنایا ہوا سب سامان پیچھے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اب افغانستان جا کر مجھے زندگی دوبارہ سے شروع کرنا پڑے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جاوید نے جو سامان فروخت کیا اس میں ایک موٹر سائیکل اور ریفریجریٹر شامل تھا، جو انہوں نے لاکھوں روپے میں خریدا لیکن اب چند ہزار میں بیچ دیا۔
کراچی میں مزدوری کرنے والے بہاؤالدین بھی اپنے سات سال کے بیٹے کے ساتھ پنکھا اور گھریلو سامان کے خریدار کی تلاش میں تھے۔ انہوں نے بتایا:
’میں نے اپنے گھر کو سجانے کے لیے ایک ایک چیز محبت اور پیار سے خریدی اور اب دکھ کے ساتھ انہیں بیچ رہا ہوں۔ میرا تین لاکھ کا نقصان ہو گیا ہے۔ اگر حکومت کچھ رعایت اور وقت دیتی تو شاید نقصان کم ہوتا۔‘
مقامی خریدار بھی افغان پناہ گزینوں کے اس عارضی بازار کا رخ کر رہے ہیں۔ ملیر کے رہائشی فیصل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ موٹر سائیکل کی تلاش میں یہاں آئے تاکہ سستی موٹر سائیکل خرید سکیں۔ انہیں اس بازار کا علم ہوا تو وہ یہاں پہنچ گئے۔
دوسری جانب ایس ایچ او تھانہ گلشن معمار نے ہدایت جاری کی ہے کہ تمام افغان پناہ گزین جن کے کارڈز کی معیاد ختم ہو گئی ہے، جلد از جلد پاکستان چھوڑ کر افغانستان واپس جائیں۔ ان کے مطابق گھریلو ذاتی سامان کے علاوہ کچھ ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہے، حتیٰ کہ زمین کی خرید و فروخت پر بھی پابندی ہے۔
اقوام متحدہ نے بھی افغان پناہ گزینوں کی جبری واپسی پر اظہارِ تشویش کیا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے پاکستان میں ترجمان قیصر خان آفریدی نے افغان پناہ گزینوں کی زبردستی واپسی پر حکومت پاکستان سے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے بقول، رہائشی کارڈ رکھنے والے افغان پناہ گزین دہائیوں سے قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی جبری واپسی بین الاقوامی قوانین، خصوصاً نون ریفولمین اصول کی خلاف ورزی ہے۔
ترجمان نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ’وہ اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے اور پناہ گزینوں کی واپسی کو رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار بنائے۔‘