عدلیہ کے نئے ضابطہ اخلاق پر بحث جاری ہے اور ایک طالب علم کے طور پر میں سوچ رہا ہوں کہ اس میں آخر ایسی کون سی چیز ہے جس سے عدلیہ کی آزادی کو مبینہ طور پر شدید خطرہ محسوس ہو رہا ہے؟
اس ضابطہ اخلاق میں کچھ بھی نیا نہیں، یہ اصول تو بہت پہلے ہی طے ہو چکے تھے۔ بس اتنا ہوا ہے کہ نئے تقاضوں کے مطابق ایک دو اصولوں کی تشریحِ جدید کر دی گئی ہے۔
یہ ضابطہ اخلاق بنیادی طور پر وہی ہے جو سپریم جوڈیشل کونسل نے 1962 میں وضع کیا تھا۔ اس سال ستمبر میں سندھ ہائی کورٹ نے بھی اسی کی روشنی میں ماتحت عدلیہ کے لیے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا جو کم و بیش ویسا ہی تھا جیسا اب سپریم جوڈیشل کونسل نے اعلیٰ عدلیہ کے لیے جاری کر دیا ہے۔
اگر ایک چیز ماتحت عدلیہ کے لیے ضروری ہے اور اس سے ماتحت عدلیہ کی آزادی خطرے میں نہیں پڑتی تو اسی چیز سے اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
عشروں پہلے بنایا گیا ضابطہ اخلاق کہتا ہے کہ ایک جج کا فرض ہے کہ وہ عوام کے سامنے اپنا امیج ’قوم کے جج‘ کے طور پر پیش کرے۔ یعنی تیرے جج اور میرے جج کے تاثر کی نفی کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں کیا غلط ہے؟
یہ سوچنا اب قوم اور قانون دانوں کا کام ہے کہ اگر عدلیہ سے کوئی سیاسی جماعت اور رہنما تو بین السطور سسلی مافیا قرار پائے اور کسی کو صادق اور امین کے القابات کے ساتھ ’گڈ ٹو سی یو‘ جیسی گرم جوشی ملے تو کیا اس سے ’قوم کے جج‘ کا تاثر قائم ہوتا ہے یا پامال۔
سپریم جوڈیشل کونسل کو البتہ اس پر بھی رہنمائی فرمانی چاہیے کہ کیا یہ فرض صرف جج صاحبان کا ہے کہ وہ ’قوم کا جج‘ بن کر دکھائیں یا کچھ ذمہ داری ان کی بھی ہے جو جج صاحبان کا انتخاب کرتے ہیں کہ انتخاب کرتے وقت وہ بھی صرف ’قوم کے جج‘ کا انتخاب کریں اور تیرے اور میرے جیسے دیگر تمام عوامل نظر انداز کر دیں۔
ضابطے کے آرٹیکل ٹو میں لکھا ہے کہ ایک جج کو مضبوط ہونا چاہیے لیکن سخت یا درشت نہیں۔ یہ بات بھی درست ہے اور اس سے آزادیِ عدلیہ کو کسی قسم کا خطرہ نہیں۔
البتہ وکلا حضرات یا سائلین (جو کم بخت نو آبادیاتی نظام ختم ہونے کے باوجود آج تک سائلین ہی کہلاتے ہیں) یہ گذارش کر سکتے ہیں کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس اس اصول پر جج حضرات کو پرکھنے یا اس اصول کے اطلاق کا کوئی نظام اور ضابطہ کار موجود ہے اور کیا کبھی اس کا اطلاق ہوا؟
ضابطے کا آرٹیکل فور کہتا ہے کہ ایک جج کو ایسے کسی مقدمے کی سماعت سے قطعی اور حتمی انکار کر دینا چاہیے جس میں اس کا یا اس کے قریبی رشتہ دارں یا قریبی دوستوں کا مفاد وابستہ ہو۔ یہ بھی ایک جائز اصول ہے اور اس سے عدلیہ کی آزادی کو کوئی خطرہ نہیں۔
ضابطہ اخلاق کی عملی افادیت کے لیے البتہ ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی جج کے اہل خانہ یا قریبی عزیز کسی خاص سیاسی جماعت کی جانب اعلانیہ جھکاؤ رکھتے ہوں تو کیا اس جج کو اس جماعت سے متعلقہ کوئی مقدمہ سننا چاہیے؟
اور اگر ماضی میں سنا گیا ہے اور سنا جاتا رہا ہے تو اس وقت یہ اصول لاگو کیوں نہ ہو سکا؟
یہاں تو ایک چیف جسٹس صاحب اپنے بیٹے کا مقدمہ خود لے کر عدالت میں بیٹھ گئے اور جب ہر طرف سے تنقید ہوئی کہ الزام بیٹے پر ہو تو مقدمہ باپ کیسے سن سکتا ہے، تو تب جا کر خود کو اس مقدمے سے الگ کیا۔
آرٹیکل 10 کہتا ہے کہ جج کو وہ تمام اقدامات کرنے چاہییں جن سے مختصر ترین مدت میں مقدمے کا فیصلہ سنایا جا سکے۔ جو جج ایسا نہیں کرتا وہ اپنے کام سے مخلص نہیں ہے اور یہ شدید قسم کی خامی ہے۔
یہ اصول بھی جائز اصول ہے۔ البتہ یہاں بھی وہی سوال اٹھتا ہے کہ اس اصول کے اطلاق کی کوئی عملی شکل بھی ہے؟
یہ سوال اس وقت اہم ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی قریب میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک فیصلے پر اضافی نوٹ میں لکھا کہ اس فیصلے کو لکھنے کی ذمہ داری بینچ میں موجود ایک جج کو دی گئی مگر انہوں نے فیصلہ لکھنے میں 223 دن لگا دیے۔ (شاہ تاج شوگر ملز بنام حکومت پاکستان (2024 ایس سی ایم آر 1656)۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آرٹیکل 10 کے اطلاق کی بھی کوئی عملی اور ٹھوس صورت موجود نہیں، حتیٰ کہ چیف جسٹس کے پاس بھی نہیں۔ 223 دنوں کی تاخیر پر وہ بھی صرف اضافی نوٹ ہی لکھ سکتا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آرٹیکل 12 میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج کسی سماجی، ثقافتی، سیاسی یا سفارتی تقریب میں شرکت نہیں کرے گا۔ اس پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اس سے عدلیہ کا عوام سے تعلق کم ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ عدلیہ کے فرائض میں کہاں لکھا ہے کہ اس کا کام عوام سے تعلق رکھنا ہے؟ عدلیہ کا کام عوام سے تعلق رکھنا نہیں، عوام کو انصاف دینا ہے۔ ایسی تقاریب میں جج صاحبان کی شرکت سے جو قباحتیں پیدا ہو سکتی ہیں وہ سب جانتے ہیں۔
آرٹیکل 14 میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج، بار کے کسی عہدے دار کی انفرادی دعوت یا ڈنر وغیرہ کو قبول نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی بالکل درست بات ہے اور اس کی افادیت مسلمہ ہے۔
آرٹیکل 13 کے مطابق کسی بھی غیر ملکی ایجنسی کی جانب سے کسی جج کو اس کے نام سے دعوت نامہ وصول کرنے کی اجازت نہیں اور اسے مس کنڈکٹ قرار دیا گیا ہے۔ ایسے کسی بھی ادارے سے کہا جائے کہ وہ اپنا دعوت نامہ چیف جسٹس کے ذریعے بھیجے۔
وہی سوال کہ براہ راست دعوت ناموں کو ادارہ جاتی ڈھالنے میں لانے سے عدلیہ کی آزادی کو کون سا خطرہ لاحق ہو گیا؟ غیر ملکی اداروں کے دعوت ناموں میں ایسا کون سا تقدس ہے کہ انہیں ضابطے میں لانے سے عدلیہ کی آزادی ہی کو خطرہ لاحق ہونے کا شور مچا دیا جائے؟
ملک میں مقدمات کا انبار لگا ہو تو بیرونی دوروں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کم از کم اسے چیف جسٹس کی اجازت سے مشروط کر دینے میں تو بالکل کوئی قباحت نہیں کیوں کہ ایک جج کے بیرون ملک چلے جانے کا معاملہ دیگر اداروں سے بالکل مختلف ہے۔
عام اداروں میں کوئی رخصت پر چلا جائے تو اس کی جگہ لینے کے لیے متبادل موجود ہوتے ہیں لیکن یہاں ایک جج کے بیرون ملک چلے جانے سے وہ سارے بینچ عملا غیر فعال ہو جاتے ہیں جن میں وہ جج صاحب شامل ہوتے ہیں۔
آرٹیکل فائیو پر سب سے زیادہ شور مچا ہوا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ جج کسی بھی صورت میں عوامی سطح پر متنازع امور میں خود کو ملوث نہیں کرے گا، بھلے اس کا تعلق کسی قانونی سوال سے ہی کیوں نہ ہو۔
اس میں البتہ ایک ابہام ہے اور اس ابہام پر اعتراض قابل فہم ہے۔ متنازع امور کی وضاحت ممکن نہیں تو یہی بتا دیا جائے کہ غیر متنازع امور کون سے ہوتے ہیں۔
ضابطہ اخلاق جج صاحبان کو میڈیا سے دور رہنے کی ہدایت کر رہا ہے۔ اس پر بھی بڑا اعتراض ہو رہا ہے لیکن میرے نزدیک یہ اس ضابطہ اخلاق کی سب سے شاندار چیز ہے۔
ضابطہ اخلاق میں اگر کوئی بڑی خامی ہے تو صرف ایک کہ اس کے اطلاق کا کوئی بامعنی اور ٹھوس میکنزم اس وقت تک نظر نہیں آ رہا۔ اسے پوری معنویت کے ساتھ نافذ ہونا چاہیے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔