ایمان مزاری صاحبہ اور جناب چیف جسٹس اسلام آباد کے درمیان تنازعے کو فریقین جانیں یا ان کے حصے کے کامریڈ اور جانثار۔ ایک عام شہری کے طور پر میری پریشانی صرف یہ ہے کہ توہین عدالت کا قانون ہو یا ہراسانی کا، یہ ویپنائز ہو چکے ہیں۔ انہیں ہتھیار بنا لیا گیا ہے۔
ان دونوں قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور ان میں با معنی اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔
توہین عدالت کا قانونی اپنی روح میں انصاف کا نہیں، جاگیردارانہ سوچ کا عکاس ہے۔ کنگ الفریڈ کے زمانے میں، جب کامن لا کے خدو خال وضع ہوئے تو مختلف علاقوں کے جاگیر دار ( لارڈز ) ہی اپنے اپنے علاقوں کے منصف بھی تھے۔ ان کی عزت کا معیار صرف جج والا نہیں تھا، وہ جاگیردار والا بھی تھا۔
ان تمام لارڈز کے درباروں اور ان کی مقامی عدالتوں میں جو قانون ’کامن‘ تھے اور جن سے سب واقف تھے، وہ کامن لا کہلایا۔ اس کامن لا کا اساسی نکتہ ’توہین عدالت‘ کا قانون تھا۔ خبردار، جاگیر دار یعنی ’لارڈ‘ صاحب کی عزت کے معیار ہی الگ تھے۔
یہ قانون نو آبادیات میں آیا تو اس کی نازک مزاجی بہت بڑھ گئی۔ آزاد معاشرے میں چونکہ اس کے مخاطب شہری تھے، اس لیے یہ حدِ اعتدال میں تھا، نو آبادیات میں اس کے سامنے رعایا تھی، اس لیے اس قانون کے تیور بدل گئے۔
یہی قانون ہمیں ورثے میں ملا، آزادی کے بعد بھی ہمارے ہاں شہری اور رعایا کی یہ فکری کھل نہ سکی اور توہین عدالت کا قانون اپنے روح اور اطلاق میں پیچیدہ ہو گیا، جس کی تفصیل کی یہاں کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے عملی مظاہر ہمارے سامنے ہیں۔
عام آدمی کو تو چھوڑیے، کبھی کسی وکیل کو ٹٹول کر دیکھیے کہ کتنے ہی سخن ہائے گفتہ تھے، جو توہین عدالت کے قانون کے خوف سے نا گفتہ ہی رہ گئے۔ وہ پھوڑے کی طرح پھٹ نہ پڑے تو بتائیے گا۔
توہین عدالت کے قانون کو کوڑا بنا کر وکیلوں اور ’سائلین‘ کو قدم قدم پر حد ادب سکھائی جاتی ہے۔ اس قصے میں سامنے ایمان مزاری تھیں، جنہوں نے حد ادب کے مطالبے کے جواب میں پورا جواب آں غزل کہہ دیا، ورنہ شہر میں رسم تو یہی ہے کہ حد ادب کی تنبیہہ اترے تو لجاجت بھرے سہمے اور خوف زدہ لہجے مزید مودب ہو جاتے ہیں۔
عدالت کوئی فیصلہ دیتی ہے اور اس پر عمل نہیں ہوتا تو یہاں توہین عدالت کا قانون لاگو ہونا چاہیے لیکن توہین عدالت کا قانون اگر مزاج نازک کا چوبدار بن کر حد ادب، حد ادب پکارتا رہے تو یہ اپنی حرمت کھو دیتا ہے۔ یہ سانحہ ہم پر بیت چکا ہے۔
Today, I have filed an addendum to my initial complaint lodged yesterday with the Supreme Judicial Council against Chief Justice Sarfaraz Dogar following the alarming development that took place yesterday where the Honourable Judge who was competent authority for harassment cases…
— Imaan Zainab Mazari-Hazir (@ImaanZHazir) September 16, 2025
توہین عدالت کا مقدمہ متعلقہ جج کو سننے کا اختیار ہی نہیں ہونا چاہیے۔ توہین عدالت کے مقدمات کی سماعت کے لیے ایک الگ بینچ ہونا چاہیے، جس میں متعلقہ جج صاحب شامل نہیں ہونے چاہییں، کیونکہ وہ تو پہلے ہی سمجھ بیٹھے ہوتے ہیں کہ توہین ہو گئی۔ ان کا فیصلہ تو پہلے ہی نوشتہ دیوار ہوتا ہے۔
زیادہ مناسب یہ ہو کہ ایسے بینچ کی سماعت میں صرف جج حضرات ہی شامل نہ ہوں، بلکہ یہ ایک طرح کی جیوری ہو جس میں ریٹائرڈ ججز اور سول سوسائٹی کے جید عمائدین میں سے بھی کوئی شامل ہو۔
یہی معاملہ ہراسانی کے قانون کا ہے۔ تصور کیجیے ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اگر کسی خاتون وکیل کو توہین عدالت کے قانون کی تنبیہہ کرتا ہے یا بیٹی کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو اس گستاخی پر اسے ہراسانی کا مرتکب قرار دے کر اس کے خلاف شکایت چلی جاتی ہے تو یہ قانون عام دفاتر میں عام لوگوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرتا ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جس طرح اس شکایت پر فوری کارروائی شروع ہو جاتی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ یہاں تو معاملہ چیف جسٹس کا تھا اور فوری طور پر مجاز اتھارٹی ڈی نوٹیفائی ہو گئی اور کہا گیا کہ جسٹس ثمن رفعت صاحبہ بطور مجاز اتھارٹی خود انکوائری کمیٹی کا حصہ نہیں بن سکتی تھیں۔ (یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جن ججز نے چیف جسٹس کی تعیناتی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، ان میں جسٹس ثمن رفعت بھی شامل تھیں)۔
خیر اسے چھوڑیے، سوال یہ ہے کہ ایسی ہی کارروائی، ایسی ہی شان نزول کے ساتھ کسی اور کے خلاف، کسی اور جگہ شروع ہوتی اور ایسی ہی مجاز اتھارٹی کے سامنے شروع ہوتی تو اس کا کیا حشر ہوتا۔
عام دفاتر میں بھی دفتری کشمکش ہوتی ہو گی۔ وہاں بھی اگر لوگ تلے بیٹھے ہوں کہ فلاں کے خلاف شکایت ذرا آئے تو سہی پھر اسے دیکھ لیتے ہیں، تو وہاں کیا ہوتا ہو گا۔ ہر کوئی اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ مجاز اتھارٹی کے رویے پر سوال اٹھے تو وہ اسی دن نوٹیفائی کر دیا جائے؟
چیف جسٹس کا فقرہ سیاق و سباق میں بالکل واضح تھا کہ انہیں سمجھائیں کہیں ایسا نہ ہو میں ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کر دوں۔ ایسے میں اگر سیاق و سباق سے ہٹ کر ’قابو کر لوں گا‘ کے مرضی کے معنی تلاش کرتے ہوئے اسے ہراسانی قرار دے کر شکایت درج کروا دی جائے اور اس پر چیف جسٹس کے خلاف سماعت بھی شروع ہو جائے تو قانون کا ایسا استعمال باقیوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرتا ہو گا۔
کسی بھی دفتر میں، کسی بھی فرد کے، کسی بھی فقرے کو، سیاق و سباق سے ہٹ کر اٹھائیے اور اس کے خلاف ہراسانی کا مقدمہ کر دیجیے۔ پھر بھلے بعد میں شکایت غلط ہی ثابت ہو لیکن ایسے شخص کی اخلاقی اور سماجی حیثیت تو ادھیڑ کر رکھ دی جاتی ہے۔
کامریڈوں، جانثاروں اور بار کی سیاست کے ساون بھادوں کے رضاکاروں کی بحث سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ توہین عدالت اور ہراسانی، یہ دونوں قوانین، ہمارے ہاں ویپنائز ہو چکے ہیں۔
معاشرہ دہائی دے رہا ہے کہ اس پر رحم کیجیے اور ان دونوں قوانین میں با معنی اصلاحات کیجیے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔