پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر مشکل وقت آیا تو وکلا کی گویا لاٹری نکل آئی۔ حلقہ انتخاب اور سیاسی تجربے سے محروم وکلا راتوں رات پارٹی رہنما قرار پائے۔ سوال یہ ہے کہ ان وکیل رہنماؤں نے تحریک انصاف کو کیا دیا؟
پارٹی کی حکمت عملی شاید یہ تھی کہ موسم ناسازگار ہے اور ڈھیروں مقدمات پارٹی کے دامن سے لپٹ چکے ہیں، ایسے میں صفِ اول میں وکیل رہنماؤں کو بٹھا دیا تو قانون سے یہ خود نمٹ لیں گے۔
چنانچہ کچھ وکیل حضرات الیکشن کے ٹکٹ لے اڑے اور بعض مرکزی عہدوں پر براجمان ہو گئے۔ جو زندگی میں کبھی کونسلر نہیں بن سکتے تھے، ایک حادثے کے نتیجے میں وہ پارلیمان میں جا پہنچے۔
یہ خود تو راتوں رات قومی رہنما بن گئے، لیکن عمران خان پر اڈیالہ کے دروازے نہ کھل سکے۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ پارٹی کے سنجیدہ لوگ بیٹھ کر سوچیں کہ وکلا کے اس ایڈونچر سے پارٹی کو کتنے کلوگرام فائدہ حاصل ہوا۔
تحریک انصاف یہ نکتہ نظر انداز کر گئی کہ بار کی سیاست اور قومی سیاست دو مختلف چیزیں ہیں۔ قومی سیاست کے تقاضے بار کی ننھی سی سیاست سے مختلف ہیں۔ اس غلطی کا انجام اب نوشتہ دیوار کی صورت میں سامنے رکھا ہے۔
سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور جن لوگوں نے اس دشت میں عمر گزاری ہوتی ہے، ان کے تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں نواز شریف کو شکست دینے والے شہزادہ گشتاسپ خان جیسے بزرگ رہنما کی تحریک انصاف کو، کوئی خبر ہی نہیں اور نومولود رہنما پارٹی کے مختارِ کُل بنے پھرتے ہیں۔
سیاست محض قانونی موشگافیوں سے نمٹنے کا نام نہیں ہوتا۔ یہ اس بصیرت کا نام بھی ہے جو عشروں عوام سے رابطے میں رہنے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ سیاست میں حالات کیسے ہی مشکل کیوں نہ ہوں، آخری حل قانون کی لایعنی بحثوں سے نہیں نکلتا، یہ سیاسی بصیرت سے نکلتا ہے، لیکن پارٹی نے ایسے عناصر کو بالکل نظر انداز کر دیا، جن کے نام سیاسی بصیرت کی کوئی تہمت دھری جا سکتی تھی۔
نتیجہ سامنے ہے۔ سیاست کی کوہ کنی وکیل رہنماؤں کے بس کی بات ہی نہیں، ان کی باہمی چپقلش نے پارٹی کو تماشا بنا دیا ہے۔ ایک اڈیالہ جاتا ہے اور دوسرے پر اڈیالہ کے دروازے بند کرنے کی نوید سنا آتا ہے، پھر دوسرا جاتا ہے اور اعلانِ عام ہوتا ہے کہ اب پہلے والے پر دروازے بند ہو چکے۔ سیاست نہ ہوئی، بازیچہ اطفال ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکلا کا انتخاب بھی سوالیہ نشان ہے۔ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں، وہ ایک قابل وکیل ہیں مگر پارٹی کی چیئرمینی کا استحقاق کیا ہے؟
سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ ہیں، جو ایک زمانے میں نواز شریف کے وکیل ہوا کرتے تھے۔ کوئی ہے جو سوال کرے کہ نواز شریف کا وکیل پارٹی کا سیکرٹری جنرل کس میرٹ پر بنا؟
پی ٹی آئی قومی سیاسی جماعت ہے مگر نہ اس کے چیئرمین کا کوئی حلقہ انتخاب ہے، نہ سیکرٹری جنرل کا۔
کیا یہ عمران خان کی افتاد طبع کا وہی مسئلہ تو نہیں، جو عثمان بزدار اور محمود خان جیسوں کو وزیراعلیٰ بنا دیتا ہے ۔کیا کوئی خوف ہے کہ کوئی مضبوط آدمی مسند پر بیٹھا تو مسئلہ پیدا کر سکتا ہے؟
پارٹی میں حامد خان جیسے دیرینہ کارکنان بھی موجود تھے۔ وہ ہمیشہ نظر انداز کیوں کیے جاتے رہے؟ پیپلز پارٹی سے بابر اعوان آئے اور معتبر ٹھہرے، فواد چوہدری آئے اور معتبر قرار پائے، حامد خان میں کیا کمی تھی کہ نگاہِ یار ان پر نہ ٹھہر سکی؟
ڈھیروں وکیل رہنما ہیں اور اکلوتی تحریک انصاف ہے، کوئی عمران خان صاحب کا ترجمان ہے، کوئی کچھ ہے تو کوئی کچھ۔ سب خوش ہیں اور سب مزے میں ہیں، جن کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ گھر سے نکلتے ہی علاقہ غیر شروع ہو جاتا تھا وہ اب ٹاک شوز کی زینت بنتے ہیں، پارلیمان میں خطاب فرماتے ہیں اور پریس کانفرنسیں کرتے ہیں۔ عمران خان مگر اب بھی اڈیالہ میں ہیں۔
اگر عمران خان کو ٹھنڈی ہوا نہیں آ سکی تو سیاسی کارکنان کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون دانوں کے یہ لشکر میدان میں اتارنے کا کیا فائدہ ہوا؟
سیاست میں کچھ حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ نہ دھوپ نہ چھاؤں۔ یہاں وقت کا موسم بدلتے دیر نہیں لگتی۔ یہ موسم مگر قانون کی موشگافیوں سے نہیں، سیاسی بصیرت سے بدلتے ہیں۔
تحریک انصاف کو واپس اپنی اساس کی طرف آنا ہو گا۔ یہ وکلا کی کوئی تنظیم نہیں کہ ان کے حوالے کر دی جاتی۔ یہ ایک قومی سیاسی جماعت ہے۔ قومی سیاسی جماعت میں غالب رنگ سیاسی رہنماؤں کا ہونا چاہیے نہ کہ وکلا رہنماؤں کا۔
قانون کی اپنی ایک اہمیت ہے اور اس سے جڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہر سیاسی جماعت نے وکلا کی ایک ٹیم رکھی ہوتی ہے۔ اس کی خدمات کے بدلے میں عہدے اور وزارتیں بھی دی جاتی ہیں۔ یہ مگر پہلی بار دیکھا کہ کسی نے ساری سیاسی جماعت ہی اٹھا کر وکلا کے حوالے کر دی۔ اس گناہِ بے لذت سے کیا ملا کہ پارٹی قائد بیٹھا تو اب بھی اڈیالہ میں ہی ہے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔