صوبہ سندھ میں تھر کے ریگستان کا سفر کرنے والے سیاح جب ننگرپارکر پہنچتے ہیں تو ’ویرا وا‘ قصبے سے گزرنا لازمی ہوتا ہے اور وہاں جا کر اگر ’کاکے احمد کا کھویا‘ نہ خریدا جائے تو سفر ادھورا لگتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سیاحوں کے ذوق نے اس مقامی مٹھاس کو نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان اور سرحد پار تک پہنچایا ہے۔ آج کاکے احمد کا کھویا تھر اور ننگرپارکر کا ایک جانا مانا برانڈ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاکا احمد بتاتے ہیں کہ انہیں یہ دکان کھولے 50 برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ’اس وقت تھرپارکر میں نہ سڑکیں تھیں، نہ پکی راہیں۔ لوگ گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر کرتے تھے۔
’میں نے انہی دنوں یہ کام شروع کیا تھا، جب ویرا وا محض ایک چھوٹا سا گاؤں تھا اور آنے والے لوگ بھی گنے چنے ہوتے تھے۔‘
وقت بدلا تو حالات بھی بدل گئے۔ اب ویرا وا سیاحوں کی گزرگاہ ہے اور کاکے احمد کا کھویا ان کے سفر کی خاص سوغات۔
کاکا احمد ہنستے ہوئے کہتے ہیں: ’14 اگست کے دن تو اتنے لوگ آتے ہیں کہ صرف ایک دن میں ہمارا دو ہزار کلو کھویا فروخت ہو گیا۔‘
ان کے مطابق تھر میں سیاحت کا موسم چار ماہ کا ہوتا ہے اور انہی دنوں میں سب سے زیادہ کھویا فروخت ہوتا ہے۔
کاکا احمد کے کھوئے کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ اس کے اجزائے ترکیبی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں: ’ہم صرف گائے اور بھینس کے دودھ سے کھویا تیار کرتے ہیں۔ بارش کے دنوں میں گائے کا دودھ زیادہ دستیاب ہوتا ہے کیونکہ گھاس وافر ملتی ہے۔
’اس کے علاوہ ہم دودھ بدین، مٹھی اور اسلام کوٹ سے بھی منگواتے ہیں۔‘
کھوئے میں شکر استعمال کی جاتی ہے لیکن ذیابیطس کے مریضوں کے لیے شوگر فری کھویا بھی دسیتاب ہے۔
آج کاکے احمد کا کھویا نہ صرف تھر کے سیاحوں کے دل جیت چکا ہے بلکہ آرڈرز کی صورت میں سندھ کے کونے کونے اور ملک بھر میں بھی پہنچ رہا ہے۔