کھجور سے لذیذ مٹھائیاں بنانے والی پنجگور کی شبانہ

مرد کھجور کو گھروں تک لاتے ہیں اور خواتین ان کھجوروں سے انواع و اقسام کی مٹھائیاں، کیک، بسکٹ، حلوہ اور لڈو بنا رہی ہیں، جس میں گھنٹوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ تب جا کر یہ خوش ذائقہ اشیا تیار ہوتی ہیں۔

بلوچستان کی خواتین آج زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور کاروبار ان میں سے ایک نمایاں میدان بنتا جا رہا ہے۔

اس تبدیلی کی قیادت وہ باہمت خواتین کر رہی ہیں جو گھر کی چہار دیواری سے نکل کر معیشت کے میدان میں بھی اپنا مقام بنا رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک روشن مثال پنجگور کی شبانہ حنیف ہیں جنہوں نے نہ صرف کھجور کے روایتی کاروبار کو ایک نیا رنگ دیا بلکہ اپنی کامیابی سے ہزاروں خواتین کے لیے اُمید کی کرن بھی بن گئیں۔

حال ہی میں کراچی ایکسپو میں لگایا گیا شبانہ کا خوبصورت سٹال محض ایک تجارتی گوشہ نہیں تھا بلکہ بلوچستان کی ثقافت کا دلکش عکس تھا۔ پنجگور کی اعلیٰ معیار کی کھجوریں، ان سے تیار کردہ مٹھائیاں، کیک، بسکٹ اور دیگر لذیذ اشیا ہر آنے والے کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں۔ روایتی لباس میں ملبوس شبانہ پورے اعتماد اور خوش مزاجی سے آنے والوں کو اپنی مصنوعات کے بارے میں بتا رہی تھیں۔

شبانہ حنیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے انٹرویو میں اپنی زندگی میں گھریلو ذمہ داریوں سے لے کر کھجور کے کاروبار تک کے کامیاب سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ’پہلے کے دور میں اور اب کے جدید دور میں بہت فرق آ گیا ہے۔ وہ یہ کہ اب بلوچستان کی خواتین بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ آ رہی ہیں۔ پہلے مرد درختوں سے کھجور اتار کر ڈبے میں بند کر کے بیچتے تھے۔ کاروبار اس وقت بھی چلتا تھا لیکن جب سے خواتین اس کھجور کے کاروبار میں سامنے آئی ہیں تو کاروبار خوب سے خوب تر چلنے لگا۔‘

’ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت نہیں، ہم خود بھی کامیاب ہیں!‘

شبانہ نے ہنستے ہوئے ایک مشہور کہاوت کو نئے زاویے سے پیش کیا: ’کہتے ہیں ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ کہا جائے کہ ہم عورتیں خود بھی کامیاب ہو سکتی ہیں اور ہم ہو رہی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ ہم خواتین ہی کا کمال ہے کہ اب کھجور ڈبوں سے نکل کر مختلف ذائقوں میں ڈھل رہی ہے۔‘ بلوچستان میں شبانہ کے سمیت بہت سی خواتین نے نت نئی کھجور سے بنانے والی اشیا کی ترکیب لگائی۔ اب مرد کھجور کو گھروں تک لاتے ہیں اور خواتین ان کھجوروں سے انواع و اقسام کی مٹھائیاں، کیک، بسکٹ، حلوہ اور لڈو بنا رہی ہیں، جس میں گھنٹوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ تب جا کر یہ خوش ذائقہ اشیا تیار ہوتی ہیں۔ بلوچستان میں بہتر اقسام کی کھجور کی کاشت ہوتی ہے جن میں سے مضافتی کھجور اپنے ذائقے میں لاجواب ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک سوال کے جواب میں شبانہ نے بتایا کہ ’بلوچستان میں اگر ایک خاندان میں ایک مرد ہے تو چار عورتیں ہیں جو اس کاروبار کو اپنے تخلیقی انداز میں آگے بڑھا رہی ہیں۔ تو اگر ہم ایسا کہیں کہ اب اس کاروبار سے ہزاروں کی تعداد میں خواتین منسلک ہو گئی ہیں اور اس مہنگائی کے دور میں اپنے مردوں کے ساتھ گھر کی گاڑی چلا رہی ہیں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا۔‘

ایک دن کی جھلک: عورت، ماں، کاریگر، کاروباری

شبانہ بتاتی ہیں کہ بلوچستان کی عورتیں ’ملٹی ٹاسکر‘ ہوتی ہیں، صبح صادق سے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ بچوں کو سکول بھیجنا، گھر کی صفائی، کھانے کی تیاری، پھر کڑھائی یا سلائی کا کام، اور اس کے بعد فیکٹری جا کر کھجور کے کاروبار میں شریک ہونا — ہم ہر محاذ پر موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں خواتین نے روایتی کرداروں سے آگے بڑھ کر معیشت میں فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔

شبانہ کے کاروبار کو اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کی جانب سے مالی معاونت بھی حاصل ہوئی ہے جس سے ان کی مصنوعات نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان بھر میں مقبول ہو چکی ہیں۔ وہ نہ صرف خود کاروبار کر رہی ہیں بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم چلا رہی ہیں جس کے تحت سینکڑوں خواتین اور کسان ان سے جڑ چکے ہیں۔ شبانہ انہیں مختلف شہروں میں فیکٹریوں اور کمپنیوں سے جوڑتی ہیں تاکہ ان کے تجارتی روابط قائم ہوں۔

خاتون کاروباریوں کے لیے اُمید کی کرن

شبانہ جیسے لوگ بلوچستان کی اُس تصویر کو دنیا کے سامنے لا رہے ہیں جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان کی کہانی صرف ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ وہ ایک تحریک کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ ایک ایسی تحریک جو بلوچستان کی خواتین کو بااختیار، خودمختار اور خوداعتماد بنا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین