کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقدہ دوسرے بین الاقوامی ’کھجور فیسٹیول‘ میں پاکستان، متحدہ عرب امارات ور مصر سمیت مختلف ممالک کی کمپنیوں نے شرکت کی، جہاں کھجور کی پیداوار میں اضافے اور اس کے پتوں، تنے اور دیگر حصوں سے ماحول دوست کارآمد اشیا بنانے کے ماڈلز پیش کیے گئے۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 72 اقسام کی کھجوریں کاشت کی جا سکتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کھجور پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے، تاہم اس کی پیداوار اور برآمدات کے عالمی معیار تک پہنچنے کے لیے مزید بہتری کی ضرورت ہے۔
یہ پاکستان میں خلیفہ انیشی ایٹو کے تحت منعقدہ دوسرا ایونٹ ہے جس میں متحدہ عرب امارات سے ایک خصوصی وفد نے شرکت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونائیٹڈ نیشن فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے ترجمان اسد علی نے بتایا کہ کراچی کھجور فیسٹیول میں پاکستان کے 18 کاشت کار شامل ہوئے، جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔ ان کے مطابق یہ یورپی یونین فنڈڈ پروجیکٹ ہے، جس کے تحت کسانوں کو تربیت دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا: ’13 یورو ملین کے اس پروجیکٹ کے تحت بلوچستان کے 20 اضلاع کے کسانوں کو تربیت اور کاروبار کے فروغ میں امداد دی جارہی ہے، جس سے روزگار میں بہتر تبدیلی آئے گی، تاہم نمائش میں کسانوں کو لانے کا مقصد ان کے باہمی روابط کو قائم کروانا ہے۔‘
فیسٹیول میں بلوچستان کے ضلع خاران سے بھی تجارت کار شریک ہوئے، جنہوں نے کھجور سے تیار کردہ مختلف اشیا جیسے کیک، مٹھائی اور حلوہ جات نمائش کے لیے رکھیں۔
تاجر عامر سلطان نے بتایا: ’بلوچستان کی زمین کھجور کی پیداوار میں 72 اقسام کی کھجور کاشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس میں سر فہرست سرخ و گلابی رنگ کی مزاواتی کھجور شامل ہے، جس کا ذائقہ دوسرے کھجور سے الگ ہوتا ہے، تاہم اس وقت ہمارا کاروبار پاکستان بھر میں پھیلا ہوا ہے جبکہ اس ایکسپو میں شامل ہونے کا مقصد کاروبار میں دوسرے ممالک کے ساتھ شراکت داری بڑھا کر اسے وسیع کرنا ہے۔‘
نمائش میں متحدہ عرب امارات سے ایک خصوصی وفد نے شرکت کی، جس میں انجینیئر محمد حسن عوضی نے فرینڈز ڈیٹ سوسائٹی کی نمائندگی کی۔ انہوں نے بتایا: ’ہم یہاں پاکستان میں موجود ہیں تاکہ لوگوں کو یو اے ای میں موجود کھجور کی مختلف اقسام سے متعارف کروا سکیں۔ متحدہ عرب امارات میں 85 ہزار سے زائد کسان کھجور کی کاشت سے وابستہ ہیں اور ہمارے ہاں 130 سے 160 مختلف اقسام کی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم کھجور کی پیداوار کے ساتھ اس کی ایکسپورٹ کے معیار پر بہتری کے لیے بھی توجہ دیتے ہیں تاکہ پاکستانی صارفین کو معیار اور تنوع کا اندازہ ہو۔‘
پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انجینیئر محمد حسن عوضی نے کہا: ’پاکستان دنیا میں کھجور پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے، مگر اب بھی یہاں کی کھجوروں کی پیکجنگ اور ایکسپورٹ کوالٹی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر توجہ دی جائے تو پاکستان کھجور کی عالمی منڈی میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط بنا سکتا ہے۔ یہ ایونٹ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان زرعی تعاون کو فروغ دیتا ہے، بلکہ پاکستانی فارمرز کے لیے ایک موقع بھی ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار کو سمجھیں اور اپنی پیداوار و برآمدات کو بہتر بنائیں۔‘
فیسٹیول میں مصر کی کمپنی ویلورائزن (Velorizon) نے کھجور کے فضلے سے ماحول دوست مصنوعات بنانے کا منصوبہ متعارف کروایا۔ کمپنی نے نمائش میں چپل، دھاگا، کپڑا، گتہ اور کھاد جیسی اشیا پیش کیں۔
کمپنی کی نمائندہ توکا بن سالم نے کہا: ’ہمارا مقصد کھجور کے درختوں کے فضلے کو ایسی تجارتی مصنوعات میں تبدیل کرنا ہے، جن کی مارکیٹ میں حقیقی مانگ موجود ہو۔ اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم پہلی بار اپنا کاروبار مصر سے پاکستان میں متعارف کرنے پہنچے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’عام طور پر کھجور کے درختوں کا فضلہ یا تو جلا دیا جاتا ہے یا کھیتوں میں بکھرا رہتا ہے، جو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے بلکہ منظرنامے کی خوبصورتی بھی متاثر کرتا ہے۔ ویلورائزن نے اس چیلنج کو ایک موقع میں بدل دیا ہے، اور اپنی جدت سے نہ صرف کچرے کو قابلِ استعمال بنایا ہے بلکہ روزگار کے نئے دروازے بھی کھولے ہیں۔‘
توکا بن سالم نے بتایا: ’فی الحال ہماری کمپنی مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں اپنی فیکٹریوں اور پروسیسنگ یونٹس کے ذریعے کام کر رہی ہے، تاہم اب ہم پاکستان میں بھی شراکت داروں کی تلاش میں ہیں۔ ہم پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کے لیے دلچسپی کو سمجھنے آئے ہیں، دیکھنا چاہتے ہیں کہ کھجور کے درختوں کی تعداد کتنی ہے اور مقامی افراد اس ماڈل میں کس حد تک شراکت داری کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں زرعی فضلہ اور ماحولیاتی مسائل ایک بڑا چیلنج ہیں، ویلورائزن جیسے اقدامات امید کی ایک نئی کرن ہو سکتے ہیں۔‘
ماہرین کے مطابق اس فیسٹیول کا مقصد کھجور کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی، بہترین زرعی طریقوں اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا ہے، جو کسانوں، سرمایہ کاروں اور برآمد کنندگان کے لیے نئے مواقع پیدا کرنے کی ایک اہم کاوش ہے۔