کھجور کے پتوں سے بنے پنکھے: ڈیمانڈ مستقل لیکن کاریگر پریشان

ایک کاریگر خاتون کے مطابق موجودہ مہنگائی کی وجہ سے ان کے معاوضے میں بچت بہت کم رہ گئی ہے، یہ کام صرف اس لیے جاری رکھا ہوا ہے کہ گھروں میں بیٹھ کر روزگار مل جاتا ہے۔

جدید دور میں بھی کھجور کے پتوں سے بنے دستی پنکھے عوام میں مقبول ہیں مگر انہیں بنانے والی خواتین کاریگر مہنگائی کے باعث مناسب اجرت نہ ملنے سے پریشان ہیں۔

پاکستان میں کھجور کی کاشت کے حوالے سے مشہور سندھ کے ضلع خیرپور کے نواحی علاقے پیر جو گوٹھ میں متعدد دیہاتوں میں کھجور کے پتوں سے ہاتھ کے پنکھے بنائے جاتے ہیں جو کم قیمت اور ماحول دوست ہوتے ہیں۔

یہ پنکھے مقامی خواتین کے گھروں میں روزگار کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔

اس کام سے وابستہ خاتون نے بتایا کہ اس پنکھے کو بنانے میں خاصی محنت درکار ہوتی ہے۔ مقامی باغات سے کھجور کی اضافی سبز ٹہنیاں خریدی جاتی ہیں، جس کے بعد ان سے پتے علیحدہ کر کے شاخوں کو سکھایا جاتا ہے۔

پتوں کو مختلف دیدہ زیب رنگوں سے رنگنے کے بعد ان کی بُنائی کا عمل گھر کی خواتین مل کر کرتی ہیں۔ بعد ازاں مڈل مین کے ذریعے انہیں فروخت کردیا جاتا ہے۔

خاتون کے مطابق موجودہ مہنگائی کی وجہ سے ان کے معاوضے میں بچت بہت کم رہ گئی ہے، یہ کام صرف اس لیے جاری رکھا ہوا ہے کہ گھروں میں بیٹھ کر روزگار مل جاتا ہے۔

یہ کام سات مختلف مراحل میں ہوتا ہے جب کہ بیس پنکھے تیار کرنے کا معاوضہ دو سے ڈھائی سو روپے ملتا ہے، جس میں تمام اخراجات بھی ان خواتین کے ہوتے ہیں۔

مقامی خاتون روشن نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ہمارا مڈل مین اس میں زیادہ منافع نہیں رکھتا، اگر سرکاری سطح پر اس کام کی حوصلہ افزائی کی جائے یا اس کی مارکیٹنگ حکومتی سطح پر ہو تو ہی کچھ بہتری ممکن ہے کیونکہ عالمی سطح پر ماحول دوست اشیا کی اچھی مارکیٹ ہے۔‘

مقامی رہائشی علی گوہر مہر ان خواتین سے پنکھے خرید کر مقامی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علی گوہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس علاقے کے درجنوں دیہاتوں میں گھروں میں خواتین یہ کام کرتی ہیں، جن سے سٹاک خرید کر مقامی مارکیٹ سمیت سکھر، خیرپور، ٹنڈوآدم کے بڑے ہول سیلرز کو بھجوایا جاتا ہے۔

’بعض اوقات مجھے خواتین کو ایڈوانس رقم ادا کرنا پڑتی ہے تاکہ یہ خام مال خرید سکیں اور کچھ لوگوں کو خام مال بھی خرید کر دینا پڑتا ہے۔ ان دنوں خام مال اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات میں خاصا اضافہ ہوا ہے، اس کے باوجود مقامی تاجر قیمت اس حساب سے نہیں دیتے۔‘

علی گوہر مہر کے مطابق مارکیٹ میں زیادہ مانگ سادے پنکھوں کی ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فی بنڈل جس میں دو درجن پنکھے ہوتے ہیں، پچاس سے ساٹھ روپے منافع رکھ کر مقامی مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے، جسے بعد میں ہول سیلر اور ریٹیلر اپنا منافع رکھ کر گاہکوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔

سکھر نشتر روڈ میں پنکھوں کے ہول سیل ڈیلر احسن نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’یہ سارا سال چلنے والا آئٹم ہے مگر لوڈشیڈنگ اور حبس کے دنوں میں اس کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں مقامی پنکھا بیس روپے کا ریٹیل میں فروخت ہوتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین