برطانوی حکومت نے منگل کو انکشاف کیا ہے کہ 2022 میں نازک حکومتی معلومات کے انکشاف کے بعد ماضی میں برطانوی شہریوں کے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں افغانوں کو ایک خفیہ پروگرام کے تحت ملک لایا گیا۔
برطانیہ کے وزیر دفاع جان ہیلی نے منگل کو ملک کی ہائی کورٹ کی جانب سے واقعات کی کسی بھی رپورٹ پر پابندی لگانے والے ایک آرڈر کو ہٹانے کے بعد پارلیمنٹ میں اس سکیم کی پہلی مرتبہ تفصیلات بتائیں۔
جان ہیلی نے کہا کہ فروری 2022 میں تقریباً 19 ہزار افغانوں کے ناموں اور تفصیلات پر مشتمل ایک دستاویز، جو برطانیہ منتقل ہونا چاہتے تھے، اتفاقیہ طور پر برطانیہ کے ایک اہلکار نے طالبان کے کابل پر قبضے کے صرف چھ ماہ بعد لیک کر دی۔
برطانوی وزیر دفاع نے کہا کہ ’یہ ایک سنگین محکمانہ غلطی تھی۔ اس سے زندگیاں داؤ پر لگ سکتی تھیں۔‘
پروگرام کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پچھلی کنزرویٹو حکومت نے اپریل 2024 میں ایک خفیہ پروگرام ترتیب دیا تھا تاکہ ان لوگوں کی مدد کی جا سکے، جو ’طالبان کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔‘
جان ہیلی نے کہا کہ تقریباً 900 افغانوں اور 3600 خاندان کے افراد کو تقریباً 400 ملین پاؤنڈ (535 ملین ڈالر) کی لاگت سے افغان رسپانس روٹ کے نام کے پروگرام کے تحت اب برطانیہ لایا گیا ہے یا لایا جا رہا ہے۔
’مزید 600 لوگوں کی درخواستیں بھی قبول کر لی گئی ہیں، جس سے سکیم کی کل لاگت 850 ملین پاؤنڈ تک پہنچ گئی ہے۔‘
وہ اُن تقریباً 36 ہزار افغانوں میں شامل ہیں، جنہیں اگست 2021 میں کابل کے سقوط کے بعد سے برطانیہ نے مختلف سکیموں کے تحت قبول کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیبر کے حزب اختلاف کے دفاعی ترجمان کے طور پر ہیلی کو دسمبر 2023 میں اس سکیم کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی لیکن کنزرویٹو حکومت نے عدالت سے کہا کہ وہ پارلیمنٹ یا پریس میں اس کے کسی بھی ذکر پر پابندی لگانے کے لیے ’حکم امتناعی‘ نافذ کرے۔
جولائی 2024 میں جب لیبر پارٹی برسرِاقتدار آئی تو سکیم زوروں پر تھی لیکن جان ہیلی نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو ’رپورٹنگ کرنے سے روکے جانے پر سخت بے چین‘ تھے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’وزرا نے فیصلہ کیا کہ ارکان پارلیمنٹ کو ڈیٹا کے واقعے کے بارے میں ابتدائی مرحلے میں نہ بتائیں، کیونکہ وسیع پیمانے پر تشہیر سے طالبان کا ڈیٹا حاصل کرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔‘
جان ہیلی نے اس سکیم کا جائزہ اُس وقت ترتیب دیا، جب وہ نئی لیبر حکومت میں وزیر دفاع بنے تھے۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ’طالبان کی طرف سے انتقامی مہم چلانے کے ارادے کے بہت کم ثبوت موجود ہیں۔‘
برطانوی وزیرِ دفاع نے مزید کہا کہ افغان رسپانس روٹ اب بند کر دیا گیا ہے۔