افغان ٹیکسی ڈرائیوروں نے خود کو اور مسافروں کو شدید گرمی سے بچانے کے لیے تخلیقی حل ڈھونڈ لیا۔
جنوبی افغانستان کے شہر قندھار میں، جہاں درجہ حرارت آسانی سے 40 درجے سیلیئس سے زیادہ ہو جاتا ہے، نیلے رنگ ٹیکسیوں پر چھت پر لگا کولر دیکھا جا سکتا ہے جو پائپ کے ذریعے ٹھنڈی ہوا گاڑی میں بیٹھے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔
ڈرائیور گل محمد کا کہنا ہے کہ ’تین یا چار سال پہلے بہت زیادہ گرمی شروع ہوئی۔ ان گاڑیوں کے ایئر کنڈیشننگ سسٹم کام نہیں کرتے تھے، اور مرمت بہت مہنگی تھی۔ چناںچہ میں ایک ٹیکنیشن کے پاس گیا اور حسب ضرورت کولر بنوا لیا۔‘
32 سالہ ڈرائیور نے اس سسٹم کے لیے 3000 افغانی (43 ڈالر) خرچ کیے۔ انہوں نے بجلی کے لیے کولر اپنی ٹیکسی کی بیٹری کے ساتھ جوڑ رکھا ہے اور اس میں باقاعدگی سے پانی سے بھرتے ہیں۔
ایک اور ڈرائیور عبدالباری کے بقول: یہ کولر ایئر کنڈیشنر سے بہتر کام کرتا ہے۔ ایئر کنڈیشنر صرف سامنے ٹھنڈک دیتے ہیں، یہ کولر پوری گاڑی میں ہوا پھیلاتا ہے۔‘
کچھ دوسرے آلات سولر پینلز سے منسلک ہیں، جو ٹیکسی کی چھت پر لگائے گئے ہیں۔
افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے جسے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سب سے زیادہ سامنا ہے۔
افغانستان شدید گرمی کی لہروں سے خاص طور پر متاثر ہوتا ہے اور خشک سالی میں اضافے کا سامنا بھی کر رہا ہے۔
مرشد، 21 سالہ ٹیکنیشن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہا کہ گذشتہ دو یا تین سال سے ٹیکسی ڈرائیوروں کی کولر کے لیے مانگ بڑھ رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے قندھار کے وسط میں اپنی چھوٹی دکان میں اے ایف پی کو بتایا: ’بہت سی گاڑیوں میں ویسے بھی ایئر کنڈیشننگ نہیں تھی، اسی لیے ہم کولر لگا رہے ہیں۔‘
افغان شہروں میں اکثر پرانی گاڑیاں چلتی ہیں جو ہمسایہ ممالک سے منتقل ہونے کے بعد آخری سانس لے رہی ہوتی ہیں۔
19 سالہ مسافر نوراللہ نے کہا کہ ’جب کولر نہیں ہوتا تو بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ ڈرائیور مسئلہ حل کرنے میں مدد کر رہے ہیں اور یہ بہت اچھی بات ہے۔‘ بات کرتے ہوئے ان کا چہرہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے چند انچ دور تھا۔