جرمنی کی ایک عدالت نے منگل کو فیصلہ سنایا کہ حکومت کو 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد خطرے میں پڑنے والے پروگرام کے تحت قبول کیے گئے افغان خاندان کو ویزا جاری کیا جانا چاہیے۔
قدامت پسند چانسلر فریڈرک مرز کے ماتحت نئی حکومت نے اس پروگرام کو منجمد کر دیا ہے۔ لیکن برلن کی انتظامی عدالت نے کہا کہ اس خاندان کو ’قانونی طور پر پابند‘ عہد دیا گیا ہے اور اسے جرمنی جانے کی اجازت دی جانا چاہیے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مقیم تقریباً 2500 افغان ایسے ہیں، جو جرمنی جانے کے منتظر ہیں۔
یہ پروگرام ان لوگوں کے لیے ترتیب دیا گیا تھا جنہوں نے افغانستان میں جرمنی کی فوج یا دیگر اداروں کے ساتھ کام کیا تھا، ساتھ ہی صحافیوں اور کارکنوں کے لیے جنہیں طالبان کی طرف سے دھمکیاں دی گئی تھیں۔
تاہم میرز کی حکومت، جس نے امیگریشن کے خلاف کریک ڈاؤن اپنے اہم انتخابی وعدوں میں سے ایک تھا، نے اپنے اتحادی معاہدے میں کہا ہے کہ وہ ’جہاں تک ممکن ہو‘ پروگرام کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
منگل کے فیصلے سے متعلقہ خاندان اس وقت پاکستان میں ہے اور اس نے ایک فوری اپیل دائر کی تھی، جس میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ انہیں افغانستان ڈی پورٹ کیا جائے گا جہاں انہیں اپنی جان کا خوف ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پروگرام کے تحت خاندان کو 2023 میں جرمنی آنے کی منظوری دی گئی تھی۔
اس کے بعد انہوں نے اسلام آباد میں جرمن سفارت خانے کو ویزوں کے لیے درخواست دی تھی جو انہیں جاری نہیں کیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ حکومت کو یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے کہ افغان شہریوں کے داخلے کے پروگرام کو کیا اور کن شرائط کے تحت جاری رکھا جائے گا اور وہ ’اس فیصلے کے عمل کے دوران نئی منظوریوں سے پرہیز کر سکتی ہے۔
’لیکن ’یہ اپنے آپ کو ان منظوریوں سے آزاد نہیں کر سکتی‘ جو پہلے ہی دی جا چکی ہیں۔‘
اپریل 2024 میں دی گئی سکیم کے بارے میں دی گئی آخری اپ ڈیٹ کے مطابق، اس پروگرام کے تحت 33000 سے زیادہ افغان جرمنی جا چکے ہیں۔