ایک جرمن جوڑا اب بھی اپنے پیارے پالتو بلے کی تلاش میں سرگرداں ہے، جو تقریباً ایک سال قبل گم ہو گیا تھا۔
رافال اور مونیکا کلائنزشمٹ گذشتہ جولائی میں مغربی جرمنی کے شہر ایشوے سے باویریا جا رہے تھے، جب ان کا بلا نیرو راستے میں ارلانگن کے مقام پر لاپتہ ہو گیا۔
53 سالہ رافال نے ’دا ٹائمز‘ کو بتایا: ’میں نے گاڑی سے بلے کا ڈبہ نکالا اور ہوٹل کی طرف جانا چاہا۔ ڈبہ ٹھیک سے بند نہیں تھا اور بلا باہر نکل گیا۔‘
نیرو کے لاپتہ ہونے کے بعد گذشتہ مہینوں میں جوڑے نے بلے تلاش کی کوششوں پر 20 ہزار یورو (22560 ڈالر) سے زیادہ رقم خرچ کر دی۔ ایندھن اور ہوٹل میں قیام جیسے اخراجات جوڑے کے معمول کا حصہ بن چکے ہیں کیوں کہ وہ ہر ہفتے کے اختتام پر اپنے گھر سے ایرلانگن تک 300 میل طویل آمد و رفت کا سفر کرتے ہیں۔
انہوں نے دا ٹائمز کو بتایا کہ وہاں وہ اپنا وقت گمشدہ بلے کے پوسٹر لگانے میں گزارتے ہیں۔ اب تک تقریباً 10 ہزار پوسٹر لگا چکے ہیں۔ میاں بیوی مقامی رہائشیوں سے بات کرتے ہیں، دروازوں پر دستک دیتے ہیں اور انتہائی احتیاط سے رکھے گئے برتنوں میں نیرو کی پسندیدہ خوراک، ٹونا مچھلی باقاعدگی سے ڈالتے ہیں۔
تاہم رافال نے ایک مسئلے کی نشاندہی کی جو نیرو کے نہ ملنے کی ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے، یعنی اس کا شرمیلا پن۔
بلے کے مالک نے انکشاف کیا کہ ’وہ ایسا بلا نہیں ہے جو لوگوں کے پاس جا کر پیار کروائے۔
’میں تصور کر سکتا ہوں کہ وہ اتنا ڈرا ہوا ہے کہ صرف رات کے وقت ہی ادھر ادھر حرکت کرتا ہو گا۔‘
انہوں نے ارلانگن میں کئی رضاکاروں کی مدد حاصل کی جنہوں نے بخوشی اپنا وقت اور محنت پیش کی۔ یہ رضاکار نئے پوسٹر لگاتے ہیں اور خوراک کے برتن دوبارہ بھرتے ہیں، جن میں سے کچھ پر کیمرے لگے ہوئے ہیں، جو رافال کے فون پر براہ راست اطلاع بھیجتے ہیں۔
مددگاروں کے پاس مائیکروچِپ ریڈرز بھی ہیں، جو رافال نے فراہم کیے تاکہ وہ شہر میں ملنے والی سیاہ رنگ کی بلیوں کو سکین کر سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے دا ٹائمز کو بتایا: ’وہ دن رات، ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اگر میں انہیں فون کروں تو وہ فوراً گاڑی میں بیٹھ کر پہنچ جاتے ہیں تاکہ مائیکرو چپ ریڈ کر سکیں۔‘
اگرچہ ان لوگوں کو ابھی تک کوئی خوشخبری نہیں ملی، لیکن انہوں نے وہ فون کال بھی نہیں سنی جس سے ہر پالتو جانور کے مالک کو ڈر لگتا ہے۔
رافال نے دی ٹائمز کو بتایا کہ ’نیرو کو مائیکرو چپ لگی ہوئی ہے اور اگر وہ مردہ حالت میں ملتا تو ہمیں اطلاع مل جاتی۔
’جانوروں کے ڈاکٹرز اور موٹروے مینٹی نینس ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ جب کوئی مردہ جانور ملتا ہے تو اس کی چپ سکین کی جاتی ہے۔‘
اس جوڑے کی کوششوں کو ارلانگن کے کچھ مقامی افراد کی جانب سے مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا، جنہوں نے پوسٹرز لگانے پر شکایت کی۔ اس کے بعد انہوں نے خود جا کر پوسٹرز کو لوگوں میں بانٹنا شروع کر دیا۔
رافال اور مونیکا نے ایک فیس بک پیج بھی بنا رکھا ہے، جہاں وہ اپنے بلے کے بارے میں تازہ معلومات اور تصاویر شیئر کرتے ہیں، اس امید پر کہ ارلانگن کے کسی علاقے میں کوئی ان کا بلا دیکھ لے گا۔ وہ وہاں اپنی کہانیاں اور نیرو کی خیریت سے واپسی کی امیدیں بھی بانٹتے ہیں۔
رافال نے دی ٹائمز کو بتایا: ’وہ میرے لیے بہت اہم ہے۔ وہ ایک دوست ہے اور خاندان کا فرد اور آپ اپنے دوستوں کو چھوڑتے نہیں۔ میں ہار ماننے والا نہیں۔ مجھے یقین ہے وہ اب بھی زندہ ہے۔‘
© The Independent