وکٹر فرنینڈو میزا دن بھر کام کرتے ہیں، لیکن ان کی تنخواہ سپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں مکان کا کرایہ دینے کے لیے کافی نہیں۔ اس لیے پیرو کے 45 سالہ شہری ایک بار پھر رات ہوائی اڈے پر گزاریں گے۔
مئی کی ایک جھلسا دینے والی شام، میزا رات نو بجے سے کچھ پہلے باراخاس ائیرپورٹ پہنچے۔ ٹھیک وقت پر تاکہ سکیورٹی رکاوٹوں سے گزر سکیں۔ اس کے بعد آنے والوں کو، اگر ان کے پاس بورڈنگ پاس نہ ہو، تو نئی پالیسی کے تحت اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ پالیسی گذشتہ ہفتے نافذ کی گئی ہے تاکہ رات گزارنے کے لیے ائیرپورٹ آنے والے سینکڑوں بے گھر افراد کو روکا جا سکے۔
یہ اقدام سپین کے مصروف ترین ائیرپورٹ پر سونے والے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نمٹنے کے لیے کیا گیا۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جسے ان تصاویر نے نمایاں کر دیا جن میں لوگ زمین پر تھیلوں اور شاپنگ ٹرالیز کے درمیان لیٹے ہوئے دکھائی دیے۔ بتیجے کے طور پر حکومتی اہلکاروں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع ہو کر دی۔
وہ لوگ جو باراخاس کو اپنا ٹھکانہ بنائے ہوئے ہیں، یورپ کے پانچویں مصروف ترین ائیرپورٹ پر بڑھتی ہوئی نگرانی کو ناپسند کرتے ہیں۔
انہیں شک ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکلے گا، اور انہیں یہ خوف بھی ہے کہ وہ ایسی جگہ کھو دیں گے جسے وہ سڑک یا میٹرو کے مقابلے میں سونے کے لیے سب سے محفوظ سمجھتے ہیں۔ ایک ایسے شہر میں جہاں بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں محدود ہیں۔
میزا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اکیلا چھوڑ دیا جائے۔ انسانوں جیسا سلوک کیا جائے، جانوروں کی طرح نہیں۔‘
میزا اس انسانی بحران سے غلط طریقے سے نمٹنے کا الزام ہسپانوی فضائی اڈوں کی منتظم سرکاری کمپنی ’اینا‘ پر لگایا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ کم شدت کے ساتھ بارسلونا، گران کینیریا، مالاگا، پالما دے مایورکا اور ٹینی ریف میں بھی موجود ہے۔
اینا کا مؤقف ہے کہ اس کی سہولیات کو کبھی سینکڑوں بے گھر افراد کو ٹھہرانے کے لیے نہیں بنایا گیا۔
’حقارت کی نظر‘
میزا کہتے ہیں کہ باراخاس کے سکیورٹی گارڈز اچھی طرح جانتے ہیں کہ ائیرپورٹ میں کون لوگ مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔
’جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں، جو ہر روز شراب نوشی کرتے ہیں، انہی کو نکال دینا چاہیے، ہم سب کو نہیں۔‘
میزا وقتاً فوقتاً سامان ڈھونے کی مزدوری کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اتنی رقم بچا سکیں گے کہ اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ایک فلیٹ کرائے پر لے سکیں۔ لیکن سپین کے دوسرے شہروں کی طرح، دارالحکومت میں بھی رہائش کے کرایوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور سرکاری رہائش نایاب ہے۔
ریئل اسٹیٹ ویب سائٹ آئیڈیلسٹا کے مطابق، میڈرڈ میں 60 مربع میٹر (645 مربع فٹ) کے ایک فلیٹ کا اوسط ماہانہ کرایہ گذشتہ ایک دہائی میں تقریباً دوگنا ہو کر 1300 یورو (1415 ڈالر) تک پہنچ چکا ہے، جو پہلے تقریباً 690 یورو تھا۔
میڈرڈ کے ائیرپورٹ پر سونے کے عمل نے میزا پر ذہنی اور جسمانی اثرات مرتب کیے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’لوگ تمہیں حقارت سے دیکھتے ہیں، یہاں اب بھی بہت زیادہ نسل پرستی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ارادہ ہے کہ وہ 50 سال کی عمر میں پیرو واپس لوٹ جائیں۔
زو، جو مالی سے تعلق رکھنے والے 62 سالہ تعمیراتی مزدور ہیں اور بارسلونا کے ائیرپورٹ میں رات گزارتے ہیں۔ وپ ان نگاہوں سے بیزار ہیں جو لوگ ان پر ڈالتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے یہاں سونا پسند نہیں، یہ بہت برا ہے۔ سب تمہیں ایسے دیکھتے ہیں۔‘ انہوں نے نفرت بھری نظر کی نقل کرتے ہوئے چہرہ بنایا۔
الزام تراشی
ایک کیتھولک فلاحی ادارے کی سروے کے مطابق مارچ میں میڈرڈ کے ائیرپورٹ پر تقریباً 421 افراد کھلے آسمان تلے سو رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر مرد تھے، آدھے سے زائد چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے ائیرپورٹ پر سو رہے تھے اور 38 فیصد نے کہا کہ وہ کام کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان میں سے تقریباً تمام افراد دن کے وقت ائیرپورٹ سے چلے جاتے ہیں۔
یہ مسئلہ ان اداروں کے درمیان شدید اختلافات کو بے نقاب کرتا ہے جن کی ذمہ داری بے گھر افراد کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔
میڈرڈ کی شہری اور علاقائی حکومتیں اینا سے لڑائی میں مصروف ہیں جو وزیراعظم پیدرو سانچیز کی سوشلسٹ حکومت کے ماتحت کام کرتی ہے۔
اینا نے ایک بیان میں کہا: ’بنیادی سماجی نگہداشت کی ذمہ داری مقامی حکومت کی ہے۔ اسے پسماندہ افراد کی دیکھ بھال کی اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔‘
میڈرڈ کے قدامت پسند میئر خوسے لوئس مارٹینیز المیڈا نے جواب میں کہا کہ مرکزی حکومت اینا کو کنٹرول کرتی ہے اور ’جو کچھ ہو رہا ہے وہ کئی وزارتوں پر منحصر ہے۔‘
شہری حکومت کا اصرار ہے کہ ائیرپورٹ پر سونے والے زیادہ تر افراد غیر ملکی ہیں جنہیں سپین کے بین الاقوامی تحفظ کے نظام کے تحت آنا چاہیے۔
الزام تراشی کے باوجود، دونوں فریقوں نے اتفاق کیا ہے کہ ایک مشاورتی ادارے کی خدمات حاصل کی جائیں گی تاکہ ائیرپورٹ میں سونے والے افراد کی گنتی سمیت کوائف اکٹھے کیے جا سکیں۔ اس تحقیق کے نتائج جون کے آخر تک متوقع ہیں۔
لیکن میزا اس پر شک ظاہر کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں کسی مدد کی ضرورت نہیں۔ ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔ بس ہمیں تنگ نہ کیا جائے۔‘