مئی میں داعش خراسان کے میڈیا ونگ ’الـعزیم میڈیا فاؤنڈیشن‘ نے پشتو زبان میں 36 منٹ کی ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے جنگجوؤں نے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں داعش خراسان کے کیمپ پر حملہ کیا اور تین روزہ محاصرے میں ان کے تمام ساتھیوں کو مار دیا، جو گولہ بارود ختم ہونے کے باعث مقابلہ نہ کر سکے۔
داعش خراسان نے بلوچ علیحدگی پسندوں اور بلوچ یکجہتی کونسل سے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد داعش خراسان کو عملی اور نظریاتی دونوں سطحوں پر شدید کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا۔
طالبان نے داعش خراسان کے کئی اہم کمانڈرز اور رہنماؤں کو گرفتار کیا یا مار دیا۔
اسی دوران طالبان نے ’المرصاد‘ کے نام سے ایک کثیر لسانی آن لائن پورٹل شروع کیا، جس نے داعش خراسان کے نظریاتی پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دینے کے ساتھ ساتھ طالبان کے کریک ڈاؤن کی رپورٹس جاری کیں۔ ان حالات نے داعش خراسان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی سرگرمیاں اور جنگجو سرحد پار پاکستان منتقل کر دے۔
پاکستان میں داعش خراسان کی خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ اور بلوچستان کے ضلع مستونگ میں مضبوط موجودگی ہے۔ بلوچستان داعش خراسان کے لیے دو وجوہات کی بنیاد پر نہایت اہم ہے۔
پہلی وجہ یہ کہ بلوچستان میں ایران مخالف انتہا پسند گروہوں جیسے لشکر جھنگوی اور جیش العدل کی موجودگی ہے۔ ماضی میں داعش خراسان نے ان گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے زندہ رہنے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا راستہ نکالا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ بلوچستان جنوبی اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے، جو داعش خراسان کے لیے ایک اہم سٹرٹیجک، راہداری اور لاجسٹک مرکز بناتا ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں داعش خراسان نے وسطی ایشیا سے بھرتیاں کیں اور روس، ایران اور ترکی میں حملے کیے۔
اس دہشت گرد گروہ کا دائرۂ تشدد ترکی اور ایران سے افغانستان، وسطی ایشیا اور روس تک پھیلا ہوا ہے، جس میں بلوچستان ایک مرکزی گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
داعش خراسان کے جنگجو افغانستان، وسطی ایشیا، ایران، ترکی اور دیگر ممالک کے درمیان سفر کے لیے بلوچستان سے گزرتے ہیں۔
مارچ میں ایبی گیٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ محمد شریف اللہ اور داعش خراسان کے 48 رکنی سیل کی گرفتاری، جو بیرون ملک حملوں کے ذمہ دار تھے، اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اس گروہ کا اثر بلوچستان میں مسلسل بڑھ رہا ہے۔
حال ہی میں پاکستان اور ترک حکام نے ایک مشترکہ کارروائی میں بلوچستان سے داعش خراسان کے اہم کارندے اوزگور آلتون عرف ابو یاسر الترکی کو گرفتار کیا، جو الـعزیم میڈیا فاؤنڈیشن سے قریبی تعلق رکھتا تھا اور اس کے ترک و انگریزی مواد کا منتظم اور پھیلانے والا تھا۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان میں داعش خراسان کی موجودگی گذشتہ کئی برسوں سے مضبوط ہو رہی ہے۔
اگرچہ نظریاتی اعتبار سے داعش خراسان اور بلوچ علیحدگی پسند ایک دوسرے کے مخالف کیمپوں میں ہیں لیکن دونوں نے تکنیکی حکمت عملی کے تحت طویل عرصے تک ایک دوسرے کے خلاف محاذ نہیں کھولا۔ ان کے درمیان عدم جارحیت کا معاہدہ اسی طرز پر تھا جیسے ماضی میں لشکر جھنگوی نے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں سے لڑائی سے گریز کیا۔
اطلاعات کے مطابق داعش خراسان کے جنگجو مستونگ میں بی ایل اے کے عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک ہی علاقے میں موجود تھے، یہاں تک کہ مارچ میں ان کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ اس وقت تک دونوں گروہ اپنے خفیہ معاہدے کے بارے میں خاموش تھے اور کسی زبانی یا جسمانی تصادم سے گریز کرتے رہے۔
یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ نظریاتی طور پر مختلف گروہ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف خفیہ حکمت عملیوں میں شریک ہو جائیں۔ بی ایل اے اور داعش خراسان دونوں کے لیے ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور بقائے باہمی قائم رکھنے میں فائدہ تھا تاکہ پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انسداد دہشت گردی کا موقع نہ ملے۔
ان کے عدم جارحیت کے معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات نظریاتی بیانیے اس وقت تک گمراہ کن ہو سکتے ہیں جب تک انہیں ان مقامی زمینی حالات کے تناظر میں نہ دیکھا جائے جن میں وہ پنپتے ہیں۔
داعش خراسان نے جب بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ساتھ اس نے علاقائی قوم پرستی، نسلی سیاست اور جمہوریت پر نظریاتی تنقید بھی کی۔
اس نے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں پر الزام عائد کیا کہ وہ بلوچ عوام کے دکھ درد کو اپنے علیحدگی پسند اور نظریاتی ایجنڈے کے فروغ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
اسی دوران داعش خراسان نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی زیر قیادت بلوچ یکجہتی کمیٹی اور منظور پشتین کی قیادت میں پشتون تحفظ موومنٹ پر بھی منافقت اور موقع پرستی کے الزامات لگائے۔
داعش خراسان کا بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف اعلان جنگ بلوچستان کے سکیورٹی منظرنامے پر سنگین اثرات ڈالے گا۔ تاہم داعش خراسان کے لیے بلوچستان میں بی ایل اے سے لڑنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس کے پاس نہ وہ قوت ہے اور نہ ہی اتنے وسائل۔
داعش خراسان نے افغانستان میں طالبان جیسے طاقت ور گروہ کے خلاف خودکش حملوں کے ذریعے کامیابی حاصل کی ہے، لہٰذا وہ یہی طریقہ بلوچستان میں بھی اپنا سکتی ہے۔ تاہم بی ایل اے کی جوابی کارروائی بلوچستان میں پہلے سے کمزور پڑی داعش خراسان کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہے۔
مارچ میں دو بڑے دھچکوں یعنی محمد شریف اللہ اور 48 رکنی سیل کی گرفتاری اور بی ایل اے کے حملے کے بعد یہ گروہ تاحال سنبھل نہیں سکا، اس لیے فی الحال بی ایل اے کے ساتھ باقاعدہ محاذ آرائی کا امکان کم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر کسی بھی وقت داعش خراسان نے بی ایل اے پر حملہ کیا اور دونوں گروہوں کے درمیان جھڑپ شروع ہوئی، تو یہ بلوچستان میں پرتشدد واقعات کی سطح کو مزید بڑھا دے گا، جہاں پہلے ہی سکیورٹی صورت حال غیر مستحکم ہے۔
اگر داعش خراسان نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سیاسی ریلیوں کو نشانہ بنایا، جیسا کہ اس نے خبردار کیا ہے، تو عوام احتجاج کرنے سے ہچکچائیں گے۔
اسی دوران اگر بی ایل اے اور داعش خراسان کے درمیان باہمی جھڑپیں ہوتی ہیں تو یہ قلیل المدتی طور پر پاکستانی سکیورٹی اداروں کے لیے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کو آسان بنا دیں گی۔
تنازعات والے علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کے مابین آپسی جھڑپیں سکیورٹی فورسز کے لیے حکمت عملی کے اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔
اس دوران ان گروہوں میں دراڑیں پیدا ہوتی ہیں اور سکیورٹی اداروں کے لیے ان میں سرایت کرنا اور معلومات حاصل کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے، جسے وہ اہم آپریشنز میں استعمال کر سکتے ہیں۔
داعش خراسان کا عدم جارحیت کا خفیہ معاہدہ اور بعد ازاں بی ایل اے کے خلاف جنگ کا اعلان پاکستان میں شدت پسندی اور سکیورٹی کے پیچیدہ منظرنامے کو واضح کرتا ہے۔
اگرچہ حالات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ دونوں گروہوں کے درمیان کسی نہ کسی درجے کی حکمت عملی پر مبنی مفاہمت موجود ہے، لیکن 25 مئی کی ویڈیو سے پہلے اس کا ٹھوس ثبوت دستیاب نہیں تھا۔
اس پس منظر میں شدت پسند گروہوں کے اندرونی ڈھانچے اور تعلقات کو بہتر طور پر سمجھنا سکیورٹی اداروں کے کام کو آسان بنا سکتا ہے۔
لہٰذا پاکستانی سکیورٹی اداروں کو چاہیے کہ وہ دہشت گرد گروہوں سے ایک قدم آگے رہنے کے لیے اپنی فکری استعداد کو مضبوط بنانے پر توانائی اور وسائل صرف کریں۔
مصنف ایس راجاراتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X: @basitresearcher
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔