27 یوٹیوب چینلز پر پابندی، دو صحافیوں کی پابندی کالعدم قرار

اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان، ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور صحافیوں سمیت 27 یوٹیوب چینلز پر پابندی عائد کی تھی۔

11 جولائی کی اس تصویر میں صحافی مطیع اللہ جان اور اسد طور کو ان کے وکلا کے ہمراہ اسلام آباد کی عدالت کے باہر دیکھا جا سکتا ہے (مطیع اللہ ایکس)

اسلام آباد کے ایڈیشنل سیش جج نے پاکستانی شہریوں کے 27 یوٹیوب چینلوں میں سے دو صحافیوں مطیع اللہ جان اور اسد طور پر پابندی لگانے کا حکم معطل کر دیے ہیں۔  

یوٹیوب پر مواد تخلیق کرنے والے دو درخواست گزاروں کی وکیل ایمان مزاری نے بتایا کہ  ’ہمارا مؤقف ہے کہ اس حکم کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔ یہ یک طرفہ فیصلہ تھا جس میں دفاع کو سنے بغیر ہی حکم جاری کر دیا گیا۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجسٹریٹ کی عدالت کو اس معاملے میں کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔

سیشن جج عدالت میں مقدمے کی اگلی سماعت 21 جولائی کو ہو گی۔

صحافی مطیع اللہ جان اور اسد طور نے ان کے چینلز پر پابندی کو اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

یوٹیوب کے علاقائی کمیونیکیشن مینیجر نے روئٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

قبل ازیں الفابیٹ کی ملکیت یوٹیوب نے اس ہفتے 27 مواد تخلیق کاروں کو بتایا کہ اگر وہ اسلام آباد کی جوڈیشل مجسٹریٹ عدالت کے اس حکم کی تعمیل نہ کر سکے جس میں ان کے چینلز پر پابندی لگانے کا کہا گیا ہے تو ان کے چینلز کو بلاک کیا جا سکتا ہے۔

ان چینلوں میں صحافیوں مطیع اللہ جان، اسد طور، صدیق جان، صابر شاکر وغیرہ کے علاوہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چینلز بھی شامل ہیں۔

اسلام آباد میں مجسٹریٹ کی عدالت کی طرف سے جاری کیے حکم میں کہا گیا کہ عدالت یہ پابندی اس لیے لگانا چاہتی ہے کیوں کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے دو جون کی ایک رپورٹ میں ان چینلز کو ’ریاستی اداروں اور ریاست پاکستان کے حکام کے خلاف انتہائی دھمکی آمیز، اشتعال انگیز اور توہین آمیز مواد شیئر کرنے‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

پاکستان کے عدالتی نظام میں مقدمات کا آغاز سول اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالتوں سے ہوتا ہے اور اپیلیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں سنی جاتی ہیں۔ 

پابندی پر حکومت کا مؤقف

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے یوٹیوب چینلز پر بندش کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جو یوٹیوبرز قانون کے مطابق چلتے ہیں، وہ مکمل طور پر آزاد ہیں۔ موبائل اٹھا کر کسی کی جان خطرے میں ڈالنا آزادیِ اظہار نہیں۔

یوٹیوب چینلز کی بندش پر بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا کو فتنہ پھیلانے، بغاوت اور قتل کے فتوے دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘

طلال چوہدری نے کہا کہ ’پاکستان میں بھی سائبر کرائم اور سکیورٹی کے قوانین موجود ہیں۔ سوشل میڈیا کو قانون کے دائرے میں لانا وقت کی ضرورت ہے۔ احتجاج کا حق سب کو ہے، مگر قانون کے دائرے میں۔‘

کیا بند کیے جانے والے چینلز صرف پاکستان میں میسر نہیں ہوں گے؟

یوٹیوب کی قانونی ٹیم نے متعلقہ یوٹیوبرز کو نوٹسز بھیجے ہیں۔ ان میں درج ہے کہ انہیں قانونی طور پاکستان کی عدالت سے درخواست موصول ہوئی ہے کہ سائبر کرائم اتھارٹی کی انکوائری کے مطابق ان 27 چینلز کو مکمل ہٹا دیا جائے۔

یوٹیوب کی قانونی ٹیم نے جو تمام 27 یو ٹیوبرز کو ای میل بھیجی ہے اس میں انہیں کہا ہے کہ ’وہ چاہیں تو اس حکم نامے پر قانونی ردعمل دے سکتے ہیں اور اگر وہ ایسے کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو یوٹیوب مقامی قوانین کے احترام میں عدالتی حکم پر مزید کوئی نوٹس دیے بغیر عمل کرے گا۔‘

یوٹیوبر صدیق جان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’عدالتی فیصلے میں یوٹیوب مکمل بند کرنے کا کہا گیا ہے جبکہ یو ٹیوب نے جو ہمیں نوٹس دیا ہے اس میں اوپر درج ہے کہ قانونی طور پر یوٹیوب چینل ہٹانے کی ہدایت ملی ہے۔ یوٹیوب کی ٹیم سے تمام متعلقہ یوٹیوبرز رابطہ کر رہے ہیں لیکن یوٹیوب نے کسی کو یہ واضح نہیں کیا کہ یہ صرف پاکستان میں بند کرنے کے لیے ہے بلکہ تاثر یہی ہے کہ یوٹیوب اکاؤنٹ مکمل بند کرنے کے حکم نامے پر عمل ہو گا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’یوٹیوب نے کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیا کہ کتنے وقت میں ہم قانونی جواب دے سکتے ہیں اور یوٹیوب کب تک چینل کو بند کرے گا۔ ہمارے پاس دو راستے ہیں یا تو جس عدالت نے فیصلہ دیا ہے ادھر ہی نظرثانی اپیل کریں گے یا پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس معاملے پر یہ ابہام تھا کہ وی پی این سے چینلز کو چلایا یا دکھایا جا سکے یا پھر شائد صرف پاکستانی ناظرین کو میسر نہیں ہو گا لیکن بیرون ملک چینل دیکھا جا سکے گا۔

اس حوالے سے ڈجیٹل ماہر فہد ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جو عدالت کا حکم نامہ ہے اس سے واضح ہے کہ یوٹیوب کو کہا گیا ہے کہ متعلقہ چینلز کو بند کر دیا جائے یا ہٹا دیا جائے۔ ایسا تاثر نہیں ہے کہ یہ صرف پاکستان میں نہیں چلیں گے بلکہ میسر ہی نہیں رہیں گے۔ یقینی طور پر اس سے کانٹینیٹ کریٹرز کو نقصان ہو گا۔‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کی حالیہ عدالتی ہدایت سے تشویش ہے، مبینہ طور پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی شکایت کے بعد صرف غیر قانونی یا نفرت انگیز تقریر مواد کو روکنے کے بجائے پورے چینلز کی بندش قابل مذمت ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق جب چینل ہی مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا تو جو انکم اس چینل کے ذریعے پیدا ہو رہی تھی وہ بھی ختم ہو جائے گی۔

اس کیس میں قانونی پہلو کیا ہیں؟

فیصل چوہدری ایڈوکیٹ نے کہا کہ یہ فیصلہ غیر سنجیدہ ہے کیونکہ بہت سے چینلز تو پاکستان سے آپریٹ ہی نہیں ہو رہے دوسری بات یہ ہے کہ آزاری اظہار رائے کی بھی یہ خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے سنے بغیر فیصلہ دیا ہے فیئر ٹرائل کا عمل نہیں ہے۔ بات چینل بند کرنے کی نہیں ہے بات یہ ہے کہ جن پر الزام لگے ہیں ان کا موقف سن تو لیں ان کو موقع تو دیں۔ بغیر موقع دیے یکطرفہ فیصلہ سنا دینا درست عمل نہیں ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ’یہ ایک غیر سنجیدہ اور غیر آئینی فیصلہ ہے۔ 94 سی آر پی سی کے مطابق عدالت پہلے ثبوت طلب کرتی ہے پورے میڈیا کو ایسے بلاک نہیں کرتی۔‘

سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’مجسٹریٹ نے جو یوٹیوب کو ہدایت دی ہے کہ چینلز کو بند کر دیا جائے۔ قانونی طریقہ کار یہی ہے کہ فریقین کو نوٹس کیا جائے ان کا موقف سنا جائے اس کے بعد فیصلہ سنایا جائے۔ دفاع کا موقع دیا بغیر فیصلہ سنانا آرٹیکل 10 اے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس فیصلے کے گراؤنڈز پر سیشن کورٹ میں اپیل ہو سکتی ہے۔‘

دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن آف پاکستان نے 27 یو ٹیوب چینلوں کی بندش کے عدالتی حکم نامے کو آئین میں درج منصفانہ ٹرائل اور آزادی رائے کے بنیادی انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مجسٹریٹ کے احکامات کو بھی قانون کی نظر میں غیر مؤثر قرار دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان