درندوں کے خلاف کارروائی کریں: لورالائی مقتول صابر حسین کے والد

لورالائی میں 10 جولائی کو قتل کیے جانے والے صابر حسین کے والد نے حکامِ بالا سے بھی اپیل کی کہ درندوں کے خلاف کارروائی کریں تاکہ مزید لوگ محفوظ رہیں۔

گوجرانوالہ کے نواحی گاؤں صائب سے تعلق رکھنے والے صابر حسین ان نو قتل ہونے والوں میں شامل تھے جنہیں گذشتہ رات لورالائی کے مقام پر بس سے اتار کے شناختی کارڈ دیکھ کر گولیاں مار دی گئیں۔

ان کے والد محمد ریاض کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنے بیٹوں کو کہا تھا کہ واپس آ جاؤ، لیکن وہ یہی کہتے تھے کہ کچھ نہیں ہوتا۔‘ لیکن اس واقعے کے بعد انہوں نے کہا کہ اب وہ اپنے بڑے بیٹے امجد کو واپس کوئٹہ نہیں جانے دیں گے۔

صابر حسین کے والد نے حکامِ بالا سے بھی اپیل کی کہ وہ ایسے درندوں کے خلاف کارروائی کریں تاکہ مزید لوگ محفوظ رہ سکیں۔

’مجھے آج صبح بھابھی کا فون آیا، اس نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ تمھارے بھائی کو گولی مار کے قتل کر دیا گیا ہے، اس بات کے بعد مجھے کسی چیز کی ہوش نہیں تھی۔‘ یہ الفاظ لورالائی میں قتل ہونے والے صابر حسین کی بہن نائلہ کے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مقتول کی چھوٹی بہن نائلہ نے بتایا کہ ان کے بھائی صابر حسین کے چار بچے ہیں اور ان کا باپ ہی گھر کا واحد کمانے والا تھا۔

نائلہ کے مطابق انہوں نے خود جب سے ہوش سنبھالا تب سے انہوں نے اپنے بھائیوں کو کوئٹہ ہی کام کرتے دیکھا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب کبھی بھی بم دھماکہ ہوتا یا ایسا کوئی واقعہ پیش آتا تو ہم بھائی کو فون کر کے حال احوال دریافت کرتے تھے، تو وہ یہی کہتے تھے کہ وہ ٹھیک ہیں، لیکن ہم خوفزدہ رہتے تھے۔ ’کئی بار بھائی کو واپس آنے کا کہا، لیکن وہ جواباً کہتے تھے آپ بس دعا کر دیا کرو، آپ لوگوں کی دعائیں میرے ساتھ ہیں، مجھے کچھ نہیں ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نائلہ نے مزید بتایا کہ ’ٹرین والے واقعے (جعفر ایکسپریس) کے بعد بھی وہ یہی کہتے تھے کہ میں سیانا ہوں، اس لیے میں ٹرین کی بجائے بس پر آتا ہوں، اور بس پر ایسا (دہشتگردی کا واقعہ) نہیں ہوتا، مگر اب وہاں بھی یہ ہو گیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کا ایک اور بڑا بھائی امجد علی بھی کوئٹہ میں ہی درزیوں کا کام کرتا ہے، لیکن اس واقعے کے بعد وہ اپنے دوسرے بھائی کو کوئٹہ نہیں جانے دیں گے۔

علی رضا، جو کہ مقتول صابر حسین کے بچپن کے دوست ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صابر حسین کوئٹہ میں کاروبار کرتا تھا، تین چار ماہ بعد گھر واپس آیا کرتا تھا، لیکن اب کی بار وہ پندرہ دن بعد واپس آ رہا تھا کیونکہ اسے اپنا آپریٹ کروانا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صابر حسین ان کے ساتھ اس بابت تبادلہ خیال کیا کرتا تھا کہ بلوچستان میں حالات ٹھیک نہیں ہیں، اور شناختی کارڈ دیکھ کر مار دیتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ سب کوئٹہ سے باہر ہوتا ہے، اندرونِ کوئٹہ میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، البتہ مقامی لوگ انہیں اچھا نہیں سمجھتے۔

علی رضا نے مزید بتایا کہ صابر حسین کا بڑا بھائی اور مزید کزنز بھی کوئٹہ جا کر کام کرتے تھے۔ صابر حسین کا چچا زاد بھائی انہی عوامل کی وجہ سے کوئٹہ چھوڑ کر واپس آ گیا تھا، لیکن صابر حسین اور اس کا بڑا بھائی ادھر ہی کام کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا دوست صابر ادھر موجود خوف کا ذکر تو کرتا تھا، لیکن بچوں کی روزی کی خاطر وہ مجبور تھا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا