قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان و سیفران کے اجلاس میں گلگت بلتستان کے حکام نے بتایا کہ ’ہمارا 2030 تک سالانہ 12 لاکھ سیاحوں تک بڑھانے کا ٹارگٹ ہے، جس سے ایک ارب ڈالر ٹورازم ریونیو حاصل کرنا ہے۔ زیادہ تر غیر ملکی سیاح ٹریکنگ کے لیے آتے ہیں۔ ان کے لیے ایف سی این اے کی کلیئرنس کے بعد لائسنس دیا جاتا ہے۔‘
جمعرات کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان و سیفران کا اجلاس چیئرمین کمیٹی حاجی امتیاز کی صدارت میں ہوا۔ کمیٹی میں گلگت بلتستان میں سیاحت کی ترقی سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی حاجی امتیاز چوہدری نے استفسار کیا کہ ’کیا سیاحت کا معاملہ کمیٹی کے دائرہ کار میں آتا ہے؟‘ سیکریٹری وزارت امور کشمیر و جی بی ظفر حسن نے بتایا کہ سیاحت کا شعبہ گلگت بلتستان کو منتقل ہو چکا ہے۔ وزارت امور کشمیر و جی بی اور سیفران کو ضم کیا گیا ہے۔ وزارت امور کشمیر گلگت بلتستان اور کشمیر کے بجٹ کے معاملات کو دیکھتی ہے۔‘
گلگت بلتستان حکومت کے سیکشن افسر نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’گلگت بلتستان ٹورازم پالیسی تشکیل کے مراحل میں ہے۔ گلگت بلتستان میں اس وقت 1155 رجسٹرڈ ہوٹلز ہیں، جن میں سے زیادہ تر سکردو اور ہنزہ میں ہیں۔ گلگت اور سکردو کے ایئرپورٹس کو اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ جگلوٹ سکردو روڈ کی اپ گریڈیشن کے بعد سیاحوں کا رخ بڑھ گیا ہے۔ سرکاری گیسٹ ہاؤسز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت نجکاری کی گئی ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سیاحت کی ترقی کے لیے مختلف قسم کے ایونٹس کا انعقاد کرتے ہیں۔ سیاحت کا سیزن صرف گرمیوں میں ہوتا ہے۔ سخت سردی کی وجہ سے سردیوں میں سیاحت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ تاہم حکومت سردیوں میں سکی انگ اور دیگر ایونٹس کا انعقاد کرتی ہے لیکن انفراسٹرکچر کی کمزوری کی وجہ سے سیاحتی شعبے کو مشکلات درپیش ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بھی سیاحت کا شعبہ متاثر ہوتا ہے۔ ہوٹلز کو گھنٹوں گھنٹوں جنریٹرز چلانے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی سکیورٹی کی صورت حال کی وجہ سے بھی سیاحت متاثر ہوتی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’سیاحت کے ذریعے دس ہزار نئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہمارا ٹارگٹ ہے۔ ہم انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی سیاحوں کی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔‘
جوائنٹ سیکریٹری وزارت بین الصوبائی رابطہ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’گلگت بلتستان میں زیادہ تر سیاح غیر ملکی ہوتے ہیں۔ وہاں جی ٹی ایس قائم کیا گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں عمان سے بائیکرز کا گروپ گلگت بلتستان آیا تھا۔ یہ گروپ پاکستان کی میزبانی سے بہت خوش ہو کر واپس گیا ہے۔‘
اراکین کمیٹی کے سوالات
رکن کمیٹی منزہ حسن نے ریمارکس دیے کہ ’گلگت بلتستان میں سیاحوں کو اکاموڈیٹ کرنے کی صلاحیت کتنی ہے؟ جب سیلاب آتا ہے تو ریسکیو کے لیے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں؟ جب لیکسس ہوٹل بن رہا تھا تو کیا رولز کا خیال رکھا گیا؟ ایک غیر ملکی سیاح بتا رہا ہے کہ عطا آباد جھیل میں سیوریج کا پانی شامل ہو رہا ہے۔ گلگت بلتستان حکومت کیا کر رہی ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’کیا سرکاری گیسٹ ہاؤسز کو لیز پر لینا مقامی لوگوں کا حق نہیں؟ وہ دس لوگ مل کر گیسٹ ہاؤس خریدیں تاکہ ان کو فائدہ ہو۔ گلگت بلتستان کے لوگوں میں شدید بےچینی ہے کہ ان سے ہر چیز چھینی جا رہی ہے اور یہاں سے جا کر دوسرے لوگ قابض ہو جاتے ہیں۔‘
رکن کمیٹی شہزادہ محمد گشتاسپ خان نے کہا کہ ’لوگ شمالی علاقہ جات میں بہترین وقت گزارنے کے لیے جاتے ہیں، اگر سیاح کو وہاں پر خطرہ ہو تو وہ کیسے وقت گزارے گا؟ ابھی تک وہاں ایک چوکی بھی نہیں بنائی جا سکی۔ گلگت بلتستان کو جانے والے راستے کم از کم محفوظ ہونے چاہyیں۔‘
رکن کمیٹی عبدالعلیم خان نے کہا کہ ’سیاحت معاشی ترقی کے لیے اہم شعبہ ہے۔ سیاحوں کی سکیورٹی اور سیفٹی کے انتظامات فول پروف ہوں گے تو یہ شعبہ ترقی کرے گا۔‘
چین کے ساتھ خنجراب بارڈر سے تجارت
رکن کمیٹی شمشمیر علی مزاری نے سوال اٹھایا کہ ’چین کے ساتھ ٹریڈ والیوم کیوں کم ہو رہا ہے؟‘
وزارتِ کامرس کے عہدے دار نے جواب دیا کہ ’جب تک گلگت بلتستان میں مقامی معیشت کو بہتر نہیں کرتے، سنکیانگ کے راستے ہماری ایکسپورٹ نہیں بڑھ سکتی۔‘
بیجنگ میں پاکستانی کمرشل کونسلر نے بذریعہ ویڈیو لنک کمیٹی کو بریفنگ دی کہ ’ہم سبزیاں، مچھلی، کٹلری وغیرہ پاکستان سے بھجوا رہے ہیں۔ ہم چیری کو چین میں زیادہ ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے سنکیانگ میں مینگو فیسٹیول بھی کروایا ہے، جسے چین میں لوگوں نے بہت پسند کیا ہے۔‘