موسمیاتی تبدیلی کے وزیر سینیٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوششوں کے تحت صحراؤں کو قابل کاشت بنانے، شجرکاری اور کاربن آف سیٹ منصوبوں کے لیے سعودی عرب سے تعاون کی خواہاں ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق پاکستان میں 42 لاکھ ہیکٹر پر جنگلات یا درخت موجود ہیں جو ملک کے کل رقبے کا 4.8 فیصد بنتا ہے۔
اس وقت ملک کی توجہ شجرکاری، پانی کے انتظام اور پائیدار زرعی طریقوں کے ذریعے صحرائی زمینوں کو آباد کرنے پر مرکوز ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب عالمی سطح پر موسمیاتی اقدامات میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے اور 2021 میں اس نے مڈل ایسٹ گرین انیشی ایٹو کا آغاز کیا تھا۔
اس کا مقصد 10.4 ارب ڈالر کے سرمائے سے ماحول دوست توانائی کو فروغ دینا، 50 ارب درخت لگانا اور مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ کے 20 کروڑ ہیکٹر رقبے کو بحال کرنا ہے۔
فروری 2022 میں پاکستان اور سعودی عرب نے ماحولیاتی تحفظ کے نو شعبوں میں تعاون کے لیے ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔
ان میں آلودگی پر قابو، قدرتی تحفظ، جنگلات، حیاتیاتی تنوع، ریگستانی بننے سے بچاؤ، خطرناک فضلہ، سمندری ماحول کا تحفظ، فضائی معیار کی نگرانی اور ماحولیاتی تربیت کا تبادلہ شامل ہیں۔
عرب نیوز کو جمعرات کو دیے گئے انٹرویو میں مصدق ملک نے کہا ’میں براہ راست سعودی حکام کے ساتھ موسمیاتی اقدامات، ریگستانوں کو آباد کرنے، جنگلات اگانے اور کاربن کاربن آف سیٹ منصوبوں پر کام کرنے جا رہا ہوں۔ مجھے صرف تھوڑا سا وقت چاہیے کہ میں ایک مکمل پیکیج تیار کر سکوں۔‘
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کی ہے اور وہ جلد ہی سعودی عرب کا دورہ کریں گے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان موسمیاتی تعاون پر بات چیت ہو سکے۔
’میرے پاس اس وقت ایسے منصوبے موجود ہیں جن میں کاربن آف سیٹ جیسے اقدامات شامل ہیں اور میں انہیں سعودی عرب لے جاؤں گا، یہ منصوبے حقیقت پسندانہ، قابل عمل اور مؤثر ہوں گے۔‘
24 کروڑ سے زائد آبادی والا پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے جہاں موسموں میں بے قاعدہ تبدیلیاں دیکھی جا رہی ہیں جیسے کہ شدید گرمی کی لہر، بے وقت بارشیں، سیلاب، طوفان اور خشک سالی۔
مصدق ملک نے بتایا کہ ان کی وزارت خلیج تعاون کونسل، خاص طور پر متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر گرین موبیلیٹی اور ری سائیکلنگ پر بھی کام کر رہی ہے تاکہ ایسے موسمیاتی اقدامات کیے جا سکیں جن سے غریب طبقہ مستفید ہو۔
مصدق ملک نے کہا ’انہوں نے مجھے ایک خط بھیجا ہے کہ پوری دنیا کے جنوب کی نمائندگی کرتے ہوئے ہم ایک تحریک کا آغاز کریں تاکہ ری سائیکلنگ کی ایک انقلابی مہم شروع کی جا سکے، جو پاکستان کے غریب عوام کی خدمت کرے۔‘
2022 میں تباہ کن سیلاب سے پاکستان کا ایک تہائی علاقہ پانی ڈوب گیا تھا جس میں 1,700 سے زائد افراد کی اموات، تین کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر اور 30 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب تک موجودہ مون سون سیزن میں پاکستان بھر میں بارشوں سے متعلقہ واقعات میں کم از کم 87 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جب کہ اموات کی تعداد مزید بڑھنے کا خدشہ بھی ہے۔
تاہم مصدق ملک کا کہنا تھا کہ موسمیاتی پیٹرن میں ’توازن‘ کی وجہ سے ملک کو 2022 جیسے شدید سیلاب کا سامنا شاید نہ کرنا پڑے۔
’جہاں گلیشیئرز کا پگھلنا بڑھ رہا ہے، وہاں بارشوں میں کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جو اعداد و شمار ہمارے سامنے آئے ہیں، وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس سال حالات نسبتاً بہتر، قابل برداشت اور کنٹرول میں ہوں گے۔‘
مصدق ملک نے اعتراف کیا کہ سرمایہ کاری کے باوجود پاکستان کے ابتدائی وارننگ سسٹمز میں ’سنگین خامیاں‘ ہیں اور اب ان خامیوں کو دور کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ بروقت انتباہ ممکن ہو سکے۔
انہوں نے کہا ’تمام سرمایہ کاری کے باوجود ابتدائی وارننگ سسٹمز وقت پر خبردار کرنے کے قابل نہیں ہیں۔۔۔ یہ نظام مؤثر طریقے سے کام نہیں کر رہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ 2022 کے بعد بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو موسمیاتی فنڈنگ کس حد تک ملی، تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ’محدود صلاحیت‘ اور ’مؤثر منصوبوں کی کمی‘ کی وجہ سے یہ فنڈنگ کم ہو گئی۔
’ہماری جذب کرنے کی طاقت محدود تھی، اور جب فنڈنگ دستیاب تھی تب بھی ہم خاطر خواہ منصوبے سامنے نہیں لا سکے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ 500 ملین ڈالر کے وعدے کے باوجود پاکستان صرف پانچ سے سات کروڑ ڈالر ہی حاصل کر پایا۔
وزیر نے بتایا کہ ان کی وزارت نے ماحولیاتی سائنس کے نوجوان ماہرین کو شامل کیا ہے تاکہ وہ نئے خیالات، منصوبے اور سٹارٹ اپس تیار کریں جو عالمی فنڈنگ کو متوجہ کر سکیں۔
’ہم سب سے کم لاگت والے، سب سے زیادہ اثر والے منصوبے سامنے لائیں گے اور ان کے لیے پوری کوشش کریں گے۔‘