ناقدین خود پاکستان کی خارجہ پالیسی کے معاملے پر معترض ہیں، لیکن سوال یہ ہے کیا واقعی پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور میں خارجہ پالیسی کی جو مبادیات (بنیادی امور) طے کر دی گئی تھیں، زمینی حقائق کی تلخی اور تندی کے باوجود پاکستانی ریاست ان پر کامیابی اور مستقل مزاجی سے چل رہی ہے۔
ان میں سے دو پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
ایک یہ کہ چین ہمارا دوست ہے، ہمیں اسے نہیں چھیڑنا لیکن امریکہ کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ یہ توازن قائم رکھنا معمولی بات نہیں تھی۔ نومولود ناقدین گاہے پھٹ پڑتے ہیں کہ پاکستان ہے کس کے ساتھ؟ چین کے ساتھ یا امریکہ کے ساتھ؟
جنہوں نے زندگی میں امور خارجہ پر ڈھنگ کی ایک کتاب نہیں پڑھی ہوتی ان کے خیال میں یہ پاکستان کا دوغلا پن ہوتا ہے۔ لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ یہ توازن قائم رکھنا پاکستان کی کتنی بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
دوسرا توازن پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں رکھا ہے۔ ایران ہمارا پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ہے ہم اس کے ساتھ نہیں بگاڑ سکتے۔
اور سعودیہ سے تو ہمارا دلی، مذہبی اور قلبی رشتہ ہے، یہ رشتہ تو ہمیں بہت ہی عزیز اور پیارا ہے اور اس رشتے کو تو ہم نے ہر حال میں نبھانا ہے۔
مشرق وسطی کی سیاست نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن پاکستان نے یہ توازن بھی قائم رکھا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی غیر معمولی کامیابی ہے۔
پاکستان جب ان دونوں ممالک میں قربت کے لیے بروئے کار آتا ہے تو بعض لوگ اس پر گرہیں لگاتے ہیں لیکن جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ پاکستان ہی اس کام کے لیے موزوں ترین ملک ہے۔
ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان میں تجزیہ کاروں میں عمومی اتفاق تھا کہ پاکستان ٹرمپ کے لیے اہم نہیں ۔ یاروں نے زلف یار کی طرح طویل مضامین باندھے کہ پاکستان اب غیر متعلق ہو چکا ہے۔
یہ سارے تجزیے وقت کی دھول بن چکے اور ٹرمپ خود ہی زبان حال اور زبان قال سے بتا رہے ہیں کہ پاکستان کتنا اہم ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا اعتراف کرنے کی بجائے ناقدین خود معاملہ پاکستان ہی کو کوسنے دیے جا رہے ہیں۔
ان ناقدین کے خیال میں جب جب پاکستان اور امریکہ قریب آئے پاکستان نے قومی مفادات پر سرنڈر کیا ۔ یہ اپنی یک طرفہ اور فرد جرم نما فہرست سے باہر نکل کر سوچیں تو معلوم ہو کہ پاکستان کے حاصل کردہ اہداف کی فہرست بھی معمولی نہیں۔
مثال کے طور پر یہ تو اب سامنے کی حقیقت ہے کہ کسی مسلمان ملک کے لیے ایٹمی قوت بننا آسان نہیں۔ پاکستان، اللہ کے کرم سے، ایک ایٹمی قوت ہے۔ افغان جنگ کا میزانیہ اس کامیابی کے بغیر کیسے مرتب ہو سکتا ہے؟
طعنے دیے جاتے تھے کہ پاکستان تنہا ہو گیا ہے۔ حالیہ پاک انڈیا جنگ میں ثابت ہوا کہ پاکستان تنہا نہیں۔ جب خواہش کو خبر اور عصبیت کو تجزیہ بنایا جائے تو نتائج فکر ایسے ہی ناقص ہوتے ہیں۔
مشرقی پاکستان کا سانحہ اپنی جگہ لیکن کیا پاکستان سے بنگلہ دیش کی موجودہ قربت پاکستان کی سفارتی کامیابی نہیں؟
افغان حکومت سے برف بھی تیزی سے پگل رہی ہے، کیا یہ پاکستان کی سفارتی کامیابی نہیں؟ انڈیا تو اپنے ہی خطے میں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ نہ اس کے بنگلہ دیش سے اچھے تعلقات، نہ سری لنکا سے، نہ پاکستان سے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران سے اس کے تعلقات اچھے تھے لیکن ایران سرائیل جنگ میں انڈیا کا وزن اسرائیل کے پلڑے میں تھا اور ایرانی پارلیمان میں تشکر پاکستان کے نعرے لگ رہے تھے۔
پاکستان کی ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کے تصور کا مذاق اڑیا گیا لیکن یہ تصور سمجھا نہیں گیا۔ سٹریٹیجک ڈیپتھ کا مطلب صرف یہ تھا کہ افغانستان میں دوست حکومت ہو تاکہ پاکستان انڈیا اور اس کے بیچ سینڈوچ نہ بن جائے۔
یہ کوئی تصوراتی خطرہ نہ تھا۔ حال ہی میں انڈیا نے سب کر کے دیکھ لیا مگر اب افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے تحفظات کو سمجھتے ہوئے قریب ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ایک سفارتی کامیابی ہی ہے۔
مسئلہ ایک ملامتی طرز فکر کا ہے جس نے ہمیں گرفت میں لیا ہوا ہے، سیاست کے سورما ہوں یا صحافت کے شاہسوار، اہل مذہب ہوں یا سول میڈیا کے جنگجو، ایک رسم سی چل پڑی ہے کہ کہیں بھی کچھ ہو، یہ پاکستان پر تنقید شروع کر دیں گے۔
ڈیجیٹل دور کا ایک آزار یہ بھی ہے مطالعے کا ذوق اورمزاج کا ٹھہراؤ جاتا رہا ہے۔ لوگ چند سطری پوسٹ یا چند لفظی بیان میں امور خارجہ کی ساری گتھیاں سلجھا دیتے ہیں۔
اکثریت کا ارتکاز کا دورانیہ سمٹتے سمٹتے اب سیکنڈوں تک آ پہنچا ہے۔ سنجیدہ مطالعہ بس سے باہر ہے۔ نوجوان ایک منٹ کی فکری مشقق سے ہانپ جاتے ہیں اور پھر اپنی افتاد طبع کے مطابق چھلانگ لگا کر نتیجے پر جا پہنچتے ہیں اور نتیجہ فکر کیا ہوتا ہے: سارا قصور پاکستان کا ہے۔
پاپولزم نے صحافت کو بھی اسی آسیب سے دوچار کر دیا ہے۔ ریٹنگ کی دوڑ لگی ہے اور تھم نیل کا تماشا۔ سنسنی خیزی اور تھوڑی سی زہر پاشی سے کام چل رہا ہو تو کس کے پاس وقت ہے مطالعہ کرے اور اپنا اور دوسروں کا وقت برباد کرے؟
اہل سیاست تو عرصہ ہوا تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ نیم خواندہ سماج کے جذبات سے کھیلنے سے آسان طرز سیاست کم از کم برصغیر میں دستیاب نہیں۔
چنانچہ جب، جہاں جو بھی واقعہ ہوتا ہے، سادہ، آسان اور تیر بہدف نسخہ یہی ہے کہ پاکستان پر تنقید شروع کر دو، پاپولزم اور نیم خواندگی میں گندھا سماج اسی کو دلاوری سمجھ لیتا ہے۔
یہ رویہ داخلی سیاست میں تو کسی حد تک گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن مشق ستم جب خارجہ پالیسی کو بنایا جاتا ہے تو یہ بڑی مضحکہ خیز اور تکلیف دہ صورت حال بن جاتی ہے۔
ہر ملک کی طرح پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی یقیناً خامیاں موجود ہوں گی لیکن مجموعی طور پاکستان نے جن شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، خارجہ پالیسی ان میں سر فہرست ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔