آئی ایم ایف بےرحم اشرافیہ کی سہولت کار؟

عام آدمی ریلیف مانگے تو کہا جاتا ہے آئی ایم ایف اجازت نہیں دے رہا لیکن جب اشرافیہ پر قومی خزانہ لٹانے کی باری آئے توآئی ایم ایف بھی کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ اصل کہانی کیا ہے؟

پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے 10 جون 2025 کو وفاقی بجٹ پیش کیا (قومی اسمبلی/ فیس بک)

عام آدمی ریلیف مانگے تو کہا جاتا ہے آئی ایم ایف اجازت نہیں دے رہا لیکن جب اشرافیہ پر قومی خزانہ لٹانے کی باری آئے تو آئی ایم ایف بھی کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ اصل کہانی کیا ہے؟

تنخواہوں کا معاملہ ہو یا پینشن کا، بجلی کے بل ہوں یا پیٹرول کی قیمتیں، خلق خدا دہائی دیتی ہے تو ملک الشعرا جھروکے میں کھڑے ہو کر رعایا کو بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم تو تمہارے غم میں دبلے ہوتے جا رہے ہیں اور تمہاری خوشیوں کے لیے وہ اپنے تن کے کپڑے تک بیچنے کو تیار ہیں لیکن برا ہو اس آئی ایم ایف کا، وہ نہیں مان رہا۔

قوال اور ہمنوا تان پر تان اٹھاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا دباؤ تھا، بجلی مہنگی کرنا پڑی۔ آئی ایم ایف کا دباؤ تھا پیٹرول پر ٹیکس لگانا پڑا۔ آئی ایم ایف کا دباؤ تھا چھوٹی گاڑی دو لاکھ روپے مہنگی کر دی گئی، آئی ایم ایف کا دباؤ تھا شمسی توانائی پر بھاری ٹیکس لگانا پڑ گئے۔

سوال یہ ہے کہ یہ آئی ایم ایف اشرافیہ کے مال غنیمت پر سوال کیوں نہیں اٹھاتا؟ اس کے سارے اعتراضات کیا عام آدمی کی خوشیوں کو چاٹنے کے لیے رہ گئے ہیں؟

نیز یہ کہ یہ ساری واردات آئی ایم ایف کے اعتراضات کا نتیجہ ہے یا یہ ہماری حکومت کی بے رحم ترجیحات کا ملبہ ہے جو عوام پر ڈالا جاتا ہے؟

آئی ایم ایف اس وقت کیوں ناراض نہیں ہوتا جب سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سسینیٹ کی تنخواہوں میں 600 فی صد اضافہ کر دیا جاتا ہے؟

آئی ایم ایف اس وقت حکومت کی سرزنش کیوں نہیں کرتا جب اراکین پارلیمان خود ہی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں ہوشربا اضافہ کر لیتے ہیں؟

وزیر اعظم ہاؤس کے افسران کے لیے جب چار چار اضافی تنخواہیں منظور فرمائی جاتی ہیں اور اس کے لیے بینکوں سے اربوں روپے قرض لیا جاتا ہے، اس وقت آئی ایم ایف کیوں اعتراض نہیں کرتا؟

سپریم کورٹ کے ملازمین کو ہر سال تین اضافی مکمل تنخواہوں پر آئی ایم ایف کیوں اعتراض نہیں کرتا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعظم ہاؤس کی گاڑیوں کے لیے نو کروڑ روپے رکھے جا رہے ہیں، یہاں کی ڈسپنسری کے نام پر 1 کروڑ 44 لاکھ رکھے جا رہے ہیں اور اس شاہی محل کے باغیچے کے لیے 4 کروڑ 48 لاکھ روپے مختص کیے جا رہے ییں، کیا آئی ایم ایف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے؟

اراکین قومی اسمبلی جس سرکاری لنگر پر شکم زن ہیں اس میں ان کے لیے بھاری بھرکم تنخواہوں کے علاوہ سمچوری الاؤنس، آفس مینٹی ننس، فون الاؤنس، ایڈ ہاک ریلیف، ہاؤسنگ الاؤنس، تاحیات بلیو پاسپورٹ، کنوینس الاؤنس اور جانے کون کون سی لذیذ ڈشیں رکھی جاتی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے کبھی اس لنگر خانے پر اعتراض نہیں کیا؟

چیف سیکرٹری کو ریٹائرمنٹ پر جو ہائی کورٹ کے جج کے برابر مراعات دی جاتی ہیں اس حکم نامے پر آئی ایم ایف کو کیسے مطمئن فرمایا گیا؟

سپریم کورٹ کے جج صاحبان اپنی غیر معمولی تنخواہ کا قریب 80 فی صد پینشن وغیرہ کی شکل میں لیتے ہیں، آئی ایف نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا؟

کیا کبھی آئی ایم ایف نے پوچھا کہ ججوں کی تنخواہوں اور مراعات کا تناسب دنیا میں کیا ہے اور پاکستان میں کیا ہے؟

کیا آئی ایم ایف نے کبھی یہ سوال کیا کہ ریٹائرڈ جج کو دو ہزار بجلی کے یونٹ مفت کیوں ملتے ہیں اور ماہانہ تین سو لیٹر پیٹرول کیوں دیا جاتا ہے؟

جب قائم مقام صدر پاکستان نے گذشتہ سال اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان کے ہاؤس رینٹ میں 500 فی صد اضافہ فرمایا تو کیا آئی ایم ایف نے کوئی شکوہ کیا؟ جب سپیریئر جوڈیشل الاؤنس بڑھا کر 10 لاکھ 90 ہزار روپے کر دیا گیا تو کیا آئی ایم ایف نے کوئی اعتراض کیا؟

کیا آئی ایم ایف نے کبھی پوچھا کہ امریکی صدر تو 147 کنال کے وائٹ ہاؤس میں رہے لیکن تمہارے جیسے غریب ملک کے شہر سرگودھا کا کمشنر 104 کنال کے سرکاری محل میں کیوں رہتا ہے؟

صنعت کاروں کو جب 140 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اور 340 ارب روپے کے قرضے معاف کیے گئے تو اس وقت آئی ایم ایف نے سوال کیوں نہیں اٹھایا؟

آئی ایم ایف نے کبھی یہ کیوں نہیں پوچھا کہ تم جیسے غریب ملک میں افسر شاہی کو اوسط تنخواہ اقوام متحدہ کے سٹاف سے 12 فی صد زیادہ کیوں ہے؟

آئی ایم ایف یہ دباؤ کیوں نہیں ڈالتی کہ صرف اسلام آباد میں بیورکریسی کے محلات کا رقبہ جو 864 ایکڑ ہے، اسے نیلام کر کے وہاں کمرشل استعمال کے لیے عمارات تعمیر کر لیں؟

سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف ہماری بے رحم اشرافیہ کا سہولت کار ہے یا یہ اشرافیہ اپنی واردات کے جواز کے طور پر آئی ایم ایف کو بطور بہانہ پیش کرتی ہے؟

کہانی بہت سادہ اور واضح ہے کہ بجٹ وہ نامبارک چاند ماری ہے جس کے بعد اشرافیہ غریب کا پیٹ کاٹ کر اپنی پلیٹ رکھ لیتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر