جنگ: پاکستان کا پلڑا بھاری ہے

پاکستان کی فضائی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے صرف ان انڈین طیاروں کو مار گرایا جنہوں نے اپنا اسلحہ آف لوڈ کیا تھا یعنی میزائل وغیرہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا تھا۔

سات مئی 2025 کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے بہاولپور سے تقریباً 7 کلومیٹر دور احمد پور شرقیہ میں انڈین حملوں کے بعد صحافی ایک مدرسے کے احاطے میں میزائل کے ٹکڑوں کی فلم بنا رہے ہیں (شاہد سعید مرزا/ اے ایف پی)

جنگ ایک ہنڈولا ہے، یہ کبھی اوپر جاتا ہے کبھی نیچے آتا ہے۔ جب تک یہ اپنے مقام پر تھم نہ جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ تاہم فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ عسکری ، اخلاقی اور قانونی ہر اعتبار سے پاکستان کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔

مگ طیاروں کو تو ایک زمانے سے انڈین اخبارات ’اڑتے ہوئے کفن‘ قرار دیتے آئے ہیں، تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ رافیل طیارے بھی بے گوروکفن زمین بوس ہوئے پڑے ہیں۔

دو یا تین کا سکور ہوتا تو کوئی بات ہوتی۔ یہ صفر اور چھ کا فرق ہے۔ یہ معمولی بات نہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ پاکستانی فضائیہ نے انڈین فضائیہ کو ناک آؤٹ کیا ہے۔

انڈیا البتہ صرف تین طیاروں کی تباہی کا اعتراف کر رہا ہے۔ یہ بھی اس لیے کہ ان رافیل طیاروں کی انونٹری چیک ہوتی ہے اور انڈیا تسلیم نہ کرتا تو فرانس بتا دیتا کہ اتنے جہاز گرا دیے گئے۔

چونکہ رافیل طیاروں کی تباہی چھپانا ممکن نہیں تھا، اس لیے ان کی حد تک حقیقت تسلیم کر لی گی۔ البتہ جو روسی مگ طیارے گرے ہیں وہ چونکہ ایسے تکلف سے بے نیاز ہیں اس لیے انڈیا کبھی مان کر نہیں دے گا کہ رافیل کے علاوہ بھی کچھ طیارے تباہ ہوئے ہیں۔

یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ چین کی جدید جنگی صلاحیت کے سامنے فرانس بھی پانی بھرتا نظرآ رہا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ رافیل طیارہ بنانے والی کمپنی ڈیسالٹ ایوی ایشن کے شیئرز گر گئے ہیں اور جے 10 اور جے ایف 17 تھنڈر بنانے والی چینی کمپنی چینگ ڈو ایئر کرافٹ کے شیئرز میں اضافہ ہو گیا ہے۔

پاکستان کی فضائی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے صرف ان انڈین طیاروں کو مار گرایا جنہوں نے اپنا اسلحہ آف لوڈ کیا تھا یعنی میزائل وغیرہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا تھا۔ جنہوں نے ایسا نہیں کیا تھا انہیں کچھ نہیں کہا گیا۔ یعنی پاکستان نے چن چن کر ٹارگٹ کیا۔ ڈاگ فائٹ میں یہ معمولی بات نہیں۔

یہی حشر انڈیا کے بھیجے گئے اسرائیلی ساختہ ڈرونز کا ہوا ہے۔ انہیں چارے کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن پاکستان نے اپنا دفاعی نظام ایکسپوز کیے بغیر سب مار گرائے۔

انڈیا اخلاقی لحاظ سے بھی پست سطح پر کھڑا ہے۔ وہ پہلگام میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دے سکا۔ دوسری جانب پاکستان نے یہاں تک پیش کش کر دی کہ مشترکہ تحقیقات کر لیجیے ہم مکمل تعاون کریں گے۔

پھر یہ کہ پہلگام واقعے پر پاکستان میں کسی نے خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ جب کہ انڈین حملے میں بے گناہ پاکستانی شہریوں کے قتل پر انڈیا کی قیادت اور حتی کہ اہل دانش اور فنکار تک خوشیاں منا رہے ہیں۔ یہ انڈین سماج کے خوفناک اخلاقی بحران کے سوا کچھ نہیں۔

قانونی اعتبار سے بھی انڈیا کی پوزیشن کمزور ہے۔ اس کا حملہ ننگی جارحیت ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت ناجائز عمل ہے جب کہ پاکستان کی جوابی کارروائی دفاعی اقدام ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے عین مطابق ہے۔

انڈیا کی جارحیت تو اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی ہے ہی، اس نے جن مقامات کو ٹارگٹ کیا وہ بھی سب کے سب غیر قانونی ہیں۔

انڈیا نے بہاولپور میں نہتے شہریوں ، بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا۔ جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول کے آرٹیکل 17 کے مطابق سول آبادی پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔ یاد رہے کہ سول آبادی کے تحفظ کے اصول کو 1907 اور 1899 کے ہیگ کنونشن اور 1929 اور 1949 کے جنیوا کنونشن کے تحت مسلمہ قانونی حیثیت دی جا چکی ہے۔

جنیوا کنونشن ایڈیشنل پروٹوکول کا آرٹیکل 51 کہتا اہے کہ شہری آبادیں پر انتقام کے تحت حملوں کی اجازت نہیں ہے۔آرٹیکل 52 کے مطابق شہری املاک کو بھی کسی حملے کا ہدف نہیں بنایا جا سکتا۔

30 ستمبر 1938 کی لیگ آف نیشنز کی قرارداد سے لے کر 19 دسمبر 1968 کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد تک یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ شہری آبادی پر اور سویلین پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔

سول آبادی پر حملے کی ممانعت کسٹری انٹرنیشنل لا کا حصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ملک اس اصول کو مانے یا نہ مانے ، یہ اصول ہر ایک ملک پر ہر حال میں لاگو ہو گا۔

اسی طرح انڈیا نے مساجد کو شہید کیا۔ انٹرنیشنل لا کے تحت یہ جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔

انڈیا کا تیسراٹارگٹ نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ تھا۔ یہ بھی جنگی جرم ہے۔ انٹرنیشنل لا کے مطابق ڈیموں اور آبی ذخائر پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سب کے جواب میں پاکستان نے ایک ذمہ دارریاست ہونے کا مظاہرہ کیا۔ اس نے پہلے مرحلے میں پہلگام میں مشترکہ تحقیقات کی بات کر کے ذمہ دار رویے کا مظاہرہ کیا۔ اور پھر جب اس پر حملہ ہوا تو اس نے جواب میں کوئی ایسا ٹارگٹ ہٹ نہیں کیا جو اقوام متحدہ کے جنگی قوانین کی روشنی میں جائز ہو۔ اس نے صرف ملٹری ٹارگٹس کو نشانہ بنایا۔

اس وقت جارحیت کرنے والا بھی انڈیا ہے، انٹرنیشنل لا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو پامال کرنے والا بھی انڈیا ہے اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والا بھی وہی ہے۔

یہاں کہا جا سکتا ہے کہ انٹرنیشنل لا کی تو عملا کوئی افادیت نہیں ، اس پر عمل کر کے پاکستان نے کیا حاصل کیا۔ لیکن یہ بات مکمل درست نہیں ہے۔

بے شک انٹرنیشنل لا طاقت ور کے آگے بے بس ہو جاتا ہے اور کمزور کا ہاتھ نہیں پکڑتا لیکن انڈیا اتنا طاقتور ہے نہ پاکستان اتنا کمزور اور بے بس، خطے کی صف بندی میں پاکستان کے دوست ممالک بھی کمزور نہیں ہیں۔ یہاں سفارت کاری اور انٹرنیشنل لا اگر اتنے زیادہ موثر نہیں تو اتنے غیر موثر بھی نہیں۔ بنگلہ دیش جیسا ملک انڈیا کو آنکھیں دکھا رہا ہے ، پھر چین بھی ہے ، ادھر کینیڈا جیسے ممالک پہلے ہی انڈیا کے خلاف فرد جرم مرتب کر چکے ہیں ، یہ یقینی ہے کہ ’مودی کے ہندوستان‘ پر دباؤ بڑھے گا۔

پاکستان اس وقت عسکری ، اخلاقی اور قانونی ہر اعتبار سے بہتر پوزیشن پر کھڑا ہے۔ اس نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ انٹرنیشنل لا پر مکمل عمل پیرا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اب اس کے پاس جوابی کارروائی کا حق بھی محفوظ ہے۔

پاکستان کے شہریوں پر حملہ ہوا ہے اور اس نے اپنا دفاع کیا ہے۔ جواب ابھی باقی ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اس کا حق ہے کہ وہ جواب بھی دے۔

اس کے نیلم جہلم پراجیکٹ پر حملہ ہوا ہے کل کو وہ پلٹ کر بگلہار یا کسی اور ڈیم پر حملہ کرتا ہے تو یہ بھی اس کا مسلمہ قانونی حق ہے۔

مودی کی پاپولزم اور نسل پرست سیاست کو دیکھیں تو معلم ہوتا ہے جنوبی ایشیا میں امن کا موسم ابھی دور ہے۔ اس خطے نے بھی کیا قسمت پائی ہے!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر