پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک خصوصی انٹرویو میں انڈیا کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں کہا ہے کہ اگر حکومت اور افواج پاکستان انڈیا کو جواب دینا مناسب سمجھیں تو وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اسلام آباد میں زرداری ہاؤس میں منگل کی شام گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’پاکستان کے پاس اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق یہ حق موجود ہے کہ وہ جواب دے، کیسے جواب دیں، کہاں جواب دیں، کس طریقے سے جواب دیں وہ اب حکومت اور افواج کے اوپر ہیں۔ ان کی پیچھے پاکستان کا ہر ایک شہری اس وقت کھڑا ہے۔‘
سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا ایک سوال کے جواب میں کہ وہ ذاتی طور پر کیا سمجھتے ہیں کیا پاکستان کو انڈیا کو اتنا نقصان پہنچانے کے بعد بھی جواب دینا چاہتے تو ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے لیے حملے کا اب جواب دینا پسندیدہ عمل نہیں ہے لیکن ہم نے یہ چاہا نہیں کہ ہم کوئی جنگ میں ملوث ہوں لیکن اب جب کہ حملہ ہوا ہے اس کا جواب بھی ممکن ہے۔‘
رکن قومی اسمبلی اور وفاقی حکومت کے حلیف بلاول نے یاد دلایا کہ وہ سب دیکھ رہے ہیں کہ کس طریقے سے دو ہفتے سے انڈیا نے پاکستان کے خلاف جھوٹے بے بنیاد الزامات بار بار دہرائے ہیں۔ ’ہم کہتے رہے ہیں کہ ثبوت سامنے لے کر آئے۔
’ہمارے وزیر اعظم نے ان کو چیلنج کیا کہ عالمی سطح پہ ایک بین القوامی سطح پہ غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوں۔‘ بلاول کا اصرار تھا کہ پاکستان کے ہاتھ صاف ہیں۔ اس واقعے کی تحقیقات ہوں تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا کوئی دور دور تک پہلگام کے واقعے سے کوئی تعلق ہی نہیں لیکن انڈیا نے حقیقت ماننے سے انکار کیا۔ انہوں نے انہیں نہ کوئی ثبوت دیا اور آج تک نہیں بتایا کہ کون لوگ (حملہ آور) کہاں سے گئے تھے؟
’وہ کون تھے جنہوں نے آپ کے شہریوں کو قتل کیا ہے۔ ان حالات میں، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لیے حملے کا آپشن پسندیدہ نہیں لیکن ان کی پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں بھی یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جو بھی حکومت کا فیصلہ ہوگا، جو بھی افواج پاکستان کا فیصلہ ہوگا ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘
بلاول بھٹو نے انڈین حملے میں جان کھونے والوں کے، جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے، اہل خانہ سے تعزیت اور حملے کی مذمت کی۔
بلاول کا کہنا تھا کہ اب حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ ’ان کی اوپر منحصر ہے ان کو حالات کا پتہ ہے۔ پاکستان یہ آپشن کب اور کیسے استعمال کرنا چاہتا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہ تناؤ کم کرنے کی کنجی بظاہر پاکستان کے پاس ہے تو ان کا کہنا تھا پاکستان تو ہمیشہ چاہتا رہا ہے اور اس کی پوری کوشش ہی یہی رہی ہے کہ کشیدگی نہ بڑھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جب ہمارے ہاں دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے بھارت میں جشن منایا جاتا ہے لیکن جب بھارت میں دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے، جب مقبوضہ کشمیر میں واقعہ ہوتا ہے تو پاکستان فوری طور پر اس کی مذمت کرتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے میں خود دہشت گردی کا شکار ہوا ہوں اور ہم چاہتے ہیں نہ صرف ہمارے ملک سے مگر اس پوری خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ انڈیا کی نئی بھارتی حکومت بھارت کے اندر اور بھارت کے ارد گرد کیا کر رہی ہے۔ ’ان کا تو فلسفہ ہی یہی رہا ہے کہ مسلمان کو دشمن بنائیں اقلیت کو دشمن بنائیں جو دہشت گردی کا واقعہ ہو وہ یا بھارت کے مسلمان پر دالتے ہیں یا پاکستان کے مسلمان پر ڈالتے ہیں۔
’پاکستان کب تک برداشت کرے کہ بھارت میں کوئی واقعہ ہو ہم سے کوئی تعلق بھی نہ ہو ان کے اپنے اندرونی مسئلے کی وجہ سے ان کے کشمیر میں ردعمل کی وجہ سے ہو یا جو بھی وجوہات ہوں اور اس کا قصور وار پاکستان کو ٹہرایا جائے۔ قصور وار پاکستان کے معصوم شہریوں کو ٹھرایا جائے، ان کو شہید کیا جائے۔‘
ن کا کہنا تھا کہ ہر ملک کی برداشت ہوتی ہے لیکن ایک حد ہوتی ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا نے اس حد کو اب کراس کیا ہے اور اس صورت میں پاکستان پیپلز پارٹی نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی آپ پارلمان کا سیشن دیکھ لیں چاہے وہ اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہوں یا سرکاری بینچوں سے ہمارا موقف ایک ہے کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں۔‘
انہوں نے افواج پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم فخر کرتے ہیں کہ جس انداز سے ہماری افواج نے ہماری ایئر فورس نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا ہے لہذا امید ہے کہ اگر انڈیا نے ایسے کوئی پھر سے کوشش کی تو ان کو جواب ملے گا۔
ایک سوالہ کہ بین القوامی حمایت اس وقت پاکستان یا انڈیا کو حاصل ہے تو ان کا کہنا تھا کہ پہلگام واقعے پر انڈیا کو حمایت نہیں ملی ہے کیونکہ وہ ثبوت فراہم نہیں کرسکا ہے۔