حمیرا اصغر کی موت: پھر نوچنے کو گدھ آ گئے

سوشل میڈیا پہ ہر لاش کی کہانی اب سازش، افیئر اور سکینڈل سے جوڑ دی جاتی ہے۔ لائیکس اور ویوز کے کھیل میں میڈیا کہیں اپنی انسانیت تو نہیں کھو رہا؟

اداکارہ حمیرا اصغر نے اپنی یہ تصویر 20 اکتوبر 2023 کو اپنے فیس بک پیج پر اپلوڈ کی تھی (فائل فوٹو/ حمیرا اصغر)

پہلا گدھ اڑتا ہوا آیا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ کسی نوجوان اداکارہ کی لاش ہے۔ اس نے لاش دیکھی تو بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ اس نے جھٹ اپنی جیب سے موبائل نکالا اور کمرے میں بےترتیب ہڈیوں کی ویڈیو بنانے لگا۔

پھر اسے خیال آیا کہ سوشل میڈیا پہ ایک بار ویڈیو گئی تو سمجھو گئی، پھر کون پوچھتا ہے کہ ویڈیو کس نے بنائی؟ اس نے فرنٹ کا کیمرا آن کر لیا تاکہ کرائم سین پر اپنی موجودگی بھی دکھا سکے۔

تصویر کا مطلب زندگی اور زندگی سے جڑے سارے رنگوں کی عکاسی ہوتا ہے۔ چہرے کے تاثرات، آنکھوں کی چمک، زندہ لمس کی جھلک۔ لیکن حمیرا کی موت کے بعد جو تصویریں وائرل ہو رہی ہیں، وہ زندگی نہیں، موت کی برہنگی کی بدترین شکل ہیں جو ہر جگہ شیئر ہو رہی ہے، بغیر سوچے، بغیر شرم کے، بغیر اجازت کے۔

اس تحریر کے قارئین سے معذرت، مجھے خود بھی بار بار لفظ لاش، نعش، ہڈیوں کا پنجر، مردہ جسم، جسد خاکی یا گِدھ لکھنے سے کراہت آ رہی ہے۔ لیکن کیا کیجیے ہمارا مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا حمیرا اصغر کی تصاویر، مردہ جسم کی ضرورت سے زیادہ معلومات، حمیرا کی زندگی سے متعلق یہاں وہاں کی تُکے بازیوں سے اٹا ہوا ہے۔

ایک سینیئر اینکر نے بریک ڈاون کر کے بتایا کہ مرنے کے بعد مرحلہ وار کون کون سے اعضا خراب ہوتے ہیں۔ اس تفصیل میں جسم کے پہلے سڑنے اور پھر گلنے کی تفصیل شامل ہے۔

حمیرا کی موت کراچی میں ہوئی یوں کراچی کے یوٹیوبرز حمیرا اصغر کے اپارٹمنٹ کے سامنے سارا کچا چٹھا کھول رہے ہیں: ’ناظرین یہ ہے وہ سیڑھی جہاں حمیرا اصغر کو اپنے گھر جاتے آخری بار دیکھا گیا تھا۔‘ ’پڑوسیوں نے کیا دیکھا، یہ ہم آپ کو بتائیں گے، لیکن پہلے آپ سبسکرائب کا بٹن دبانا نہ بھولیں۔‘

حمیرا کا تعلق لاہور سے تھا، یوں لاہور کے یوٹیوبرز حمیرا کے گھر والوں، دوستوں، محلے داروں کو چھاپہ مار ٹیموں کی طرح ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ کچھ خاندانی چپقلش پہ بےلاگ تبصرے فرما رہے ہیں۔ کچھ کے ہاتھ چند رشتے دار لگ گئے ہیں۔

دروازے کے پیچھے اس کی زندگی کب اور کیسے ختم ہوئی، یہ ابھی جاننے میں وقت لگے گا، لیکن یوٹیوب اور سوشل میڈیا پہ سچ اور جھوٹ کے ملغوبے نے ایک ہیجان سا پیدا کر دیا ہے۔

انسٹا گرام پہ ایک غیر معروف خاتون تبصرہ نگار کی ویڈیو دیکھی، ان کے مطابق وہ ذرائع نہیں بتا سکتیں لیکن حمیرا اصغر کے آخری لمحات کا پورا نقشہ کھینچ گئیں۔ پھر ذرائع نامعلوم رکھتے ہوئے انہوں نے حمیرا اصغر کی بعض ایسی خراب عادات کا بتایا جو ان کی موت کی وجہ بنیں۔

خاتون کی پروفائل دیکھی تو دیگر ویڈیوز سے اندازہ ہوا کہ انہیں حمیرا اصغر سے زیادہ امریکی صدر ٹرمپ کی آمد و رفت، عادات و اطوار کا علم تھا۔

کرائم رپورٹرز کو جو آزادی ان کے نیوز چینلز اور اخبار نہیں دیتے تھے، سوشل میڈیا اور یوٹیوب نے دے دی ہے۔ اب انہیں اپنی قیاس آرائی پہ مبنی کرائم رپورٹنگ سے کوئی ایڈیٹر نہیں روک سکتا۔ سو وہ ہر موت کو کرسٹل میتھ کے نشے ضرور جوڑتے ہیں۔ ان کی ہر سٹوری میں مقتولہ کا آشنا بھی ضرور ہوتا ہے۔ ایک بااثر شخصیت سے تعلق رپورٹ کر کے سٹوری کو چار چاند لگا دیے جاتے ہیں۔

اب اندر کی تفصیلات بتانے والوں کے بعد باری آتی ہے۔ سوشل میڈیائی اخلاقی پولیس کی جو سوشل میڈیا پہ خواتین کوموت کے بعد کا منظر دکھانے، نشانِ عبرت کا خوف دلانے اور روزِ محشر سے ڈرانے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اخلاقی اور مذہبی پولیسنگ کرنے والوں کی تان مکافاتِ عمل پہ آ کر ٹوٹتی ہے۔ یہ اپنے دیکھنے والوں کو شہرت کے نقصانات، دولت والوں کی محتاجی، اکیلی لڑکی کی بےبسی اور ماڈرن خاتون کا خوفناک انجام ضرور بتاتے ہیں۔

ایک یوٹیوبر کہتا ہے، ’ہمیں تفتیشی اداروں پر اعتماد نہیں۔‘ دوسرا کہتا ہے، ’جو اہم سوال میں نے اٹھائے ہیں، پولیس کو ان کے جواب ڈھونڈنے چاہیے۔‘ تیسرے کا کہنا ہے کہ ’یہ شہرت کی دنیا کا مکافاتِ عمل ہے، مٹی پاؤ۔‘ گویا ہر تبصرہ ایک فتویٰ، ہر ویڈیو ایک دعویٰ۔

حمیرا کی زندگی کیسی تھی، یہ ہم نہیں جانتے۔ شاید وہ ٹوٹ گئی تھی، شاید تھک گئی تھی، شاید دنیا سے الگ تھلگ رہنا چاہتی تھی۔ جو بھی تھا، وہ اس کی نجی زندگی تھی۔ حمیرا کی موت کیسے ہوئی، ہم یہ بھی نہیں جانتے۔ شاید اس نے خود ہی اپنی زندگی کا فیصلہ کر دیا، شاید وہ کسی کے ظلم کا شکار ہو گئی۔ جو بھی ہے، یہ پولیس کی تفتیش کا معاملہ ہے۔

سوشل میڈیا کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے پروفیشنل ازم تو ہم سے کب کا رخصت ہو چکا تھا لیکن اب بنیادی انسانی قدریں کھونے کی باری ہے۔

ایک دوڑ ہے کہ کون خود کو سب سے نیچا ثابت کر کے دکھاتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اداکارہ حمیرا اصغر کی زندگی میں کتنے گدھ تھے جو اس کی ٹوٹتی ہمت دیکھ کر تاک میں تھے کہ کب انہیں خوراک ملے گی۔

پولیس کی تحقیقات سے جو نتیجہ آئے گا سو آئے گا، لیکن اس کی آنکھ بند ہونے کے کئی ماہ بعد گِدھوں کا جو جھنڈ کا جھنڈ جمع ہوا ہے ان کا سدباب کون کرے گا؟

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ