پاکستان میں ٹیمو سمیت آن لائن خریداری مہنگی، وجہ کیا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ایک طرف ملکی ریونیو میں اضافہ ہو گا، تو دوسری طرف ممکنہ طور پر صارفین پر قیمتوں کا دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے کیونکہ کمپنیاں نئے ٹیکسز کا بوجھ خریداروں کو منتقل کر سکتی ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی زرمین وقت کی کمی کی وجہ سے آن لائن شاپنگ کو ترجیح دیتی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس دن پریشان ہو گئیں جب انہوں نے دیکھا کہ ’جون میں Temu سے خریدے گئے جس موبائل کور کی قیمت ہزار روپے تھی، وہ اب تین ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایک ایپ جو سستی سمجھی جاتی تھی، اب مہنگی اشیا بیچ رہی ہے، جس کا سبب سمجھنا مشکل ہے، یہ حکومتی بجٹ کے اثرات ہیں یا خود کمپنیوں نے قیمتیں بڑھا دی ہیں، وہ اسے سمجھ نہیں پائیں۔

زرمین لودھی کی بات کا تسلسل مہرین جہانزیب کے تجربے سے ملتا ہے۔ مہرین کچن کے برتن اور سجاوٹی اشیا علی ایکسپریس سے منگواتی ہیں۔ مہرین جہانزیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جو ڈش سیٹ پہلے 1500 روپے کا تھا، اب اس میں سے صرف ایک ڈش کی قیمت ہزار روپے ہو گئی ہے۔‘ ابتدائی دنوں میں یہ ایپس کم قیمت پر اشیا مہیا کرتی تھیں، مگر اب وہ ان پلیٹ فارمز سے خریداری کرنا ممکن نہیں سمجھتیں۔

پاکستان میں آن لائن خریداری کا رجحان گذشتہ چند برسوں سے تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور چینی ایپس جیسے Temu ،AliExpress اور Shein نے صارفین میں خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ سستی اشیا، مفت شپنگ، اور منفرد پراڈکٹس کی دستیابی نے ان پلیٹ فارمز کو پاکستانی صارفین کے لیے کشش کا مرکز بنا دیا تھا۔ تاہم، 2025 کے وسط سے ان پلیٹ فارمز پر اشیا کی قیمتوں میں اچانک اور غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، جس نے صارفین کو حیران اور مایوس کر دیا ہے۔

ایف بی آر نے آن لائن کاروبار کو ضابطے میں لاتے ہوئے ڈیجیٹل معیشت پر ٹیکس کے دائرہ کار کو مزید وسیع کیا ہے اور نئے اعلامیے کے تحت اب نہ صرف بیرونِ ملک سے پاکستان میں اشیا اور خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں پر ٹیکس عائد ہو گا بلکہ ملک کے اندر آن لائن اشیا فروخت کرنے والے مقامی کاروبار بھی اس میں شامل کر دیے گئے ہیں۔

حکام کے مطابق، پاکستان میں قائم آن لائن مارکیٹ پلیسز، ویب سائٹس یا موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے اشیا فروخت کرنے والے تمام افراد یا اداروں پر اب دو فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان کاروباروں سے جڑے پیمنٹ گیٹ وے، بینک، مالیاتی ادارے اور کورئیر کمپنیاں بھی اس نظام کا حصہ ہوں گی، جو آن لائن لین دین کے دوران ادائیگی اور ترسیل کے عمل کو مکمل کرتے ہیں۔

پانچ فیصد یہ نیا ٹیکس دراصل اُس ترمیم شدہ شیڈول کا حصہ ہے جسے ڈیجیٹل پریزنس پروسیڈز ٹیکس ایکٹ 2025 کے تحت نافذ کیا گیا ہے۔ یہ قانون پارلیمنٹ سے منظور ہو چکا ہے اور اب باضابطہ طور پر نافذ العمل ہے۔ اس کا مقصد مقامی و غیر ملکی ڈیجیٹل کاروباروں کے درمیان ٹیکس کے معاملے میں برابری قائم کرنا ہے، تاکہ پاکستانی کاروباروں کو غیر منصفانہ مقابلے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ایف بی آر کے مطابق بیرونِ ملک وہ کمپنیاں جو پاکستان میں سالانہ کم از کم پانچ ڈیجیٹل لین دین کرتی ہیں، مقامی کرنسی میں ادائیگیاں وصول کرتی ہیں یا پاکستانی صارفین کو خدمات فراہم کرتی ہیں، ان کی ملک میں ’ڈیجیٹل موجودگی‘ تصور کی جائے گی۔ ایسی کمپنیوں پر مختلف شرحوں سے ٹیکس لاگو ہو گا جن کی تفصیل ایف بی آر کی ویب سائٹ پر جاری کر دی گئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ایک طرف ملکی ریونیو میں اضافہ ہو گا، تو دوسری طرف ممکنہ طور پر صارفین پر قیمتوں کا دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے کیونکہ کمپنیاں نئے ٹیکسز کا بوجھ خریداروں کو منتقل کر سکتی ہیں۔

ای کامرس انڈسٹری ٹیکسوں کے بوجھ تلے

مرزا نادر بیگ، جو ’آرگینگ پراڈکٹ‘ کے نام سے خالص شہد اور قدرتی مصنوعات کی آن لائن فروخت کرتے ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ای کامرس پاکستان کی واحد ایسی انڈسٹری ہے جسے نوجوانوں نے اپنے بل بوتے پر کھڑا کیا۔ یہ انڈسٹری، جو کبھی چند لاکھ روپے کی سیل پر مشتمل تھی، آج اربوں روپے کی مارکیٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک ارب ڈالر کی یہ صنعت آج سات ارب ڈالر کی سطح کو چھو رہی ہے، اور یہ سب نوجوانوں کی محنت، وژن اور ڈیجیٹل مہارت کی بدولت ممکن ہوا ہے۔‘

مرزا نادر بیگ کے مطابق، ’بجٹ 2025 کے بعد 2 فیصد انکم ٹیکس اور 2 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ، جو یکم جولائی سے لاگو ہو چکا ہے، ای کامرس کاروباروں کے لیے ایک بڑا مالیاتی بوجھ ہے۔ کوریئر کمپنیاں یہ کٹوتیاں ہر آرڈر پر کر رہی ہیں، خواہ وہ چھوٹا کاروبار ہو یا بڑا، سب کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مثال کے طور پر ہزار روپے کی فروخت پر 40 روپے کی کٹوتی، دو ہزار روپے پر 80 روپے کی کٹوتی، یہ کٹوتیاں صرف آرڈرز کی آمدنی پر نہیں، بلکہ مارکیٹنگ، کوریئر چارجز اور آن لائن ادائیگیوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ مارکیٹنگ پر 15٪ ٹیکس، کوریئر چارجز پر جی ایس ٹی کی مد میں 15 سے 20 ہزار روپے تک کی کٹوتی، اور آن لائن پیمنٹ پر 2 سے 2.5 فیصد مزید ٹیکس، یہ سب ملا کر کاروباری ماڈل کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔‘

اسی حوالے سے ماہرِ معیشت شہریار بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’2025 کے وسط میں نافذ کی گئی حکومت کی نئی کسٹمز پالیسی کا آن لائن درآمدات پر براہِ راست اثر دکھائی دے رہا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اب چھوٹے پارسلز پر بھی کسٹمز ڈیوٹی عائد کی جا رہی ہے، جو پہلے معاف تھی، جس کی وجہ سے آن لائن اشیا کی قیمتوں میں واضح اضافہ ہوا ہے۔

جبکہ روپے کی مسلسل کمزور ہوتی ہوئی قدر بھی مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ہے، کیونکہ ان پلیٹ فارمز پر مصنوعات کی قیمتیں امریکی ڈالر میں مقرر ہوتی ہیں، اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ کی کمزوری سے صارفین کو اضافی بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ، مشرقِ وسطیٰ میں کشیدہ سیاسی حالات اور بند بحری راستوں نے شپنگ لاگت میں اضافے کیا ہے جس کا اثر چین سے پاکستان تک اشیا کی قیمتوں پر پڑ رہا ہے۔

غیر ملکی آن لائن پلیٹ فارمز پر دستیاب مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ صرف عالمی مہنگائی یا کرنسی کی شرحِ تبادلہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے پیچھے مقامی سطح پر ٹیکسز، امپورٹ ڈیوٹیز اور ریگولیٹری اقدامات بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب، حکومت پاکستان ای کامرس کے فروغ کے لیے بھی عملی اقدامات کر رہی ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے علی بابا گروپ کے وفد سے ملاقات میں ای کامرس کے فروغ کے لیے جامع حکمت عملی بنانے کی ہدایت دی اور اس مقصد کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا