عالمی تنازعات: ٹرمپ کا امریکی طاقت کے بجائے کمزوری کا انتخاب

اس وقت دنیا میں تشدد اور عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے اور امریکہ اب بھی مغرب کی واحد بڑی طاقت ہے جو درحقیقت دنیا پر اکیلے ہی اپنا اثر ڈالنے کی طاقت رکھتا ہے۔

18 جون 2025 کو بنائے گئے تصویروں کے اس کولاج میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، امریکی صدر ڈونلڈ اور اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نظر آ رہے ہیں (اے ایف پی)

تو دنیا ایسی ہی دکھائی دیتی ہے جب امریکہ کمزور ہوتا ہے اور کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی طاقت کے مظاہرے کے بجائے کمزوری کا انتخاب کیا ہے۔

گذشتہ رات بھی ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے پر راکٹ برسانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی دوران روس نے کیئف میں شہری اہداف پر بڑے پیمانے پر فضائی حملہ کیا جس میں 15 افراد مارے گئے اور 44 زخمی ہوئے۔ تو دنیا کے خود ساختہ ’عظیم ترین ثالث‘ اور ’امن کے داعی‘ اس سب کے بارے میں کیا کر رہے ہیں؟

وہ کینیڈا میں ہونے والے جی سیون اجلاس ادھورا چھوڑ کر واپس واشنگٹن روانہ ہو گئے لیکن واضح کر دیا کہ اس عجلت کا مشرق وسطیٰ کے بحران سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اس سے ’کہیں زیادہ بڑے‘ معاملے کو دیکھنے جا رہے تھے۔ شاید وہ کوئی نئی کرپٹو کرنسی لانچ کر رہے ہوں۔

جنوری میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ’امن قائم کرنے والے اور اتحاد پیدا کرنے والے‘ رہنما بنے گے اور ان کی حکومت امریکی طاقت کو استعمال کرے گی تاکہ دنیا میں پھیلی تمام جنگیں ختم کی جائیں اور ایک ایسا نیا جذبہ لایا جائے جو نفرت، تشدد اور غیر یقینی کی شکار دنیا کو متحد کرے۔‘

لیکن ان کی دوسری صدارت کے صرف پانچ ماہ بعد دنیا پہلے سے زیادہ نفرت، تشدد اور غیر یقینی کا شکار ہے۔

آئیے ایران اور اسرائیل سے اس کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ اگر ایران کو امریکی دباؤ میں آ کر جوہری پروگرام پر مذاکرات میں دھکیلا نہ گیا ہوتا تو شاید گذشتہ پانچ دنوں کی یہ جنگ شروع ہی نہ ہوتی۔

یقیناً ایران کا جوہری ہتھیار رکھنا انتہائی خطرناک ہوتا اور خطے کو مزید غیر مستحکم کر دیتا لیکن جیسا کہ کئی تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ مذاکرات کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اگر ٹرمپ نے سابق صدر باراک اوباما کے دور میں طے شدہ جوہری معاہدے سے دستبرداری نہ اختیار کی ہوتی۔

صدر اوباما کا وہ معاہدہ جو روس سمیت دیگر کئی ممالک کی حمایت سے طے پایا تھا، ٹرمپ نے اس کو یک طور پر ختم کر کے ایران کے ساتھ اب مذاکرات کے لیے ایک من مانی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی اور اسی ڈیڈ لائن کے صرف ایک روز بعد اسرائیل نے ایران کے خلاف فضائی مہم کا آغاز کر دیا جس میں اہم سٹریٹیجک مقامات اور فوجی رہنما ہدف بنے۔

یہ یاد رکھنا بھی اہم ہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں جب ایران نے اسرائیل پر 200 سے زائد بیلسٹک میزائل داغے تھے تب ٹرمپ نے اسرائیل کو حملوں سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا اور مذاکرات پر زور دیا تھا۔

مشرق وسطیٰ میں ابھرتے ہوئے اس بحران نے یوکرین پر روس کے حملے کو عالمی منظر نامے سے پیچھے دھکیل دیا ہے جو بظاہر ولادی میر پوتن کے لیے باعث مسرت ہو گا۔

جب سے ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے، روس یوکرین پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے، امن مذاکرات سے بچ رہا ہے اور ٹرمپ کو چکر دے رہا ہے۔ یوکرینی ذرائع کو خدشہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال سے دنیا کی توجہ ہٹنے کا فائدہ پوتن کو یہ موقع دے گا کہ وہ مستقبل کے مذاکرات سے پہلے مزید زمین پر قبضے کے لیے مزید سنگین حملے کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حال ہی میں یوکرین کے دورے کے دوران ایک مقامی سکیورٹی اہلکار نے مجھے بتایا کہ ٹرمپ کی ’امن مذاکرات‘ کی کوششوں نے درحقیقت ماسکو کو اپنے حملے تیز کرنے کی مزید ترغیب دی ہے کیونکہ پوتن جانتے ہیں کہ جب تک روس ان نمائشی مذاکرات میں شریک ہوتا رہے گا، امریکہ کی طرف سے کسی سنجیدہ ردعمل کا خطرہ نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ نے کمزوری کا انتخاب کیا ہے۔ امریکہ کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ لوگوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے مگر وہ نہ تو دباؤ ڈال رہا ہے اور نہ ہی کوئی مراعات دے رہا ہے۔

بے شک وہ مشرق وسطیٰ میں کچھ فوجی وسائل منتقل کر رہا ہے مگر ایران اور اسرائیل دونوں جانتے ہیں کہ ٹرمپ کے حامی (میک امریکہ گریٹ اگین تحریک سے وابستہ لوگ) بیرونی جنگوں میں امریکہ کی مداخلت کے معاملے پر منقسم ہیں اور ظاہر ہے، وہ پوتن سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ یوکرین پر حملے نہیں روکتا تو سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔

لیکن تمام شواہد یہی بتاتے ہیں کہ ٹرمپ ایسا نہیں کریں گے۔ اس دوران، دنیا میں تشدد اور عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکہ اب بھی مغرب کی واحد بڑی طاقت ہے۔ درحقیقت، وہ واحد ملک ہے جو دنیا پر اکیلے اپنا اثر ڈالنے کی طاقت رکھتا ہے۔

یہ بات کہ یہ طاقت اچھی ہے یا بری، بعد کی بحث ہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی کہ مغرب نے امریکہ کو اتنی یکطرفہ طاقت حاصل کرنے کیسے دی۔

اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ان دو تنازعات (ایران اسرائیل اور روس یوکرین) پر اثر انداز ہو جن کے ایک دوسرے سے جڑنے اور دنیا کو مزید خطرناک بنانے کا خدشہ ہے۔

کاش وائٹ ہاؤس میں بیٹھا شخص اپنی طاقت کو اچھے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی ہمت کر سکے۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ