اقوامِ متحدہ کے جوہری نگراں ادارے آئی اے ای اے نے منگل کو تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کے نطنز نیوکلیئر کمپلیکس پر کیے گئے حالیہ فضائی حملے میں زیرِ زمین یورینیم افزودگی پلانٹ کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا۔
یہ انکشاف ابتدائی جائزے میں دی گئی رپورٹ کے برخلاف ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ صرف زمینی سطح پر قائم پائلٹ پلانٹ تباہ ہوا جبکہ زیرِ زمین تنصیب کو براہِ راست نقصان نہیں پہنچا۔
آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے پیر کے روز کہا تھا کہ اگرچہ زیرِ زمین پلانٹ کو براہِ راست نشانہ نہیں بنایا گیا، تاہم وہاں نصب سینٹری فیوجز کو بجلی کی ترسیل کے نظام پر حملے کے نتیجے میں ’شدید نقصان پہنچنے کا قوی امکان‘ ہے۔
تاہم منگل کو ادارے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں کہا ’جمعے کے روز ہونے والے حملے کے بعد حاصل کردہ ہائی ریزولوشن سیٹلائٹ تصاویر کے مسلسل تجزیے کی بنیاد پر آئی اے ای اے نے ایسے اضافی شواہد کی نشاندہی کی ہے جو نطنز میں زیرِ زمین افزودگی ہالز پر براہِ راست حملے کی تصدیق کرتے ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق ایران کے دیگر دو بڑے جوہری مراکز، یعنی اصفہان اور فردو میں ’کسی قسم کی تبدیلی یا نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔‘
ایران کے پاسداران انقلاب کے مطابق انہوں نے منگل کو تل ابیب میں اسرائیل کی غیر ملکی انٹیلی جنس سروس موساد کے ایک مرکز کو نشانہ بنایا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی( اے ایف پی) کے مطابق سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں پاسداران انقلاب نے کہا ہے کہ انہوں نے ’تل ابیب میں صیہونی حکومت کی فوج کے ملٹری انٹیلی جنس سینٹر امان اور صیہونی حکومت کے دہشت گرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کے مرکز موساد کو نشانہ بنایا۔‘
اسرائیل کی جانب سے 13 جون کو ایران کی متعدد فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملوں کے نتیجے میں ایران کے فوجی رہنماؤں، جوہری سائنس دانوں اور عام شہریوں کی موت کے بعد ’آپریشن وعدہ صادق سوم‘ کے نام سے تہران کے جوابی حملے جاری ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل بھی مختلف ایرانی شہروں اور تنصیبات پر میزائل حملے کر رہا ہے۔
اسی دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’تہران کو فوری طور پر خالی کرنے‘ کا انتباہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔
ایران اور اسرائیلی جنگ کی اپ ڈیٹس یہاں دیکھیے:
ایران اسرائیل تنازعے کا ’حقیقی خاتمہ‘ چاہتے ہیں: ٹرمپ
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو کہا ہے کہ ان کا مقصد روایتی حریف اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع کا ’حقیقی خاتمہ‘ ہے، نہ کہ صرف جنگ بندی۔
فرانسسی خبر رساں ایجنسی ( اے ایف پی) کے مطابق ٹرمپ نے کینیڈا میں جی سیون سربراہی اجلاس سے واپس امریکہ پہنچنے کے فورا بعد نامہ نگاروں کو بتایا: ’میں جنگ بندی نہیں چاہتا، ہم جنگ بندی سے بہتر پر غور کر رہے ہیں۔‘
صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ ’ایک اختتام، ایک حقیقی اختتام، نہ کہ صرف جنگ بندی‘ کے خواہاں ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ایران ’مکمل طور پر دستبردار‘ ہو جائے۔
ایران اسرائیل جنگ: افغانستان سے گزرنے والی پروازوں میں اضافہ
افغانستان کی وزارت ٹرانسپورٹ اینڈ ایوی ایشن کے حکام کا کہنا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع شروع ہونے کے بعد ملک کی فضائی حدود سے گزرنے والی پروازوں میں اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان کی وزارت ٹرانسپورٹ اینڈ سول ایوی ایشن کے ترجمان حکمت اللہ آصفی کے مطابق وزارت ہوائی اڈوں پر اوور فلائٹس کے لیے ضروری خدمات فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغان فضائی حدود محفوظ ہے اور ایئرلائنز اپنی پروازوں کے لیے اس راستے کو محفوظ طریقے سے استعمال کر سکتی ہیں۔
ان کے مطابق افغان فضائی حدود سویلین پروازوں کے لیے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اوور فلائٹس کی تعداد میں بعض اوقات اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، لیکن فی الحال، ہم اس میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔
آمو اخبار نے ایک سرمایہ کار اسد اللہ اسدی کے حوالے سے کہا کہ ’افغان فضائی حدود سے گزرنے والے زیادہ تر طیارے مسافر اور کارگو طیارے ہیں اور ٹرانزٹ فیس 700 سے 850 ڈالر فی پرواز ہے۔‘
اسرائیلی فوج کا ایرانی افواج کے اعلیٰ کمانڈر کی موت کا دعویٰ
اسرائیلی فوج نے منگل کو دعویٰ کیا ہے کہ اس نے گذشتہ رات ایک حملے میں ایرانی فوج کے اعلیٰ کمانڈر علی شادمانی کو نشانہ بنایا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا کہ ’گذشتہ رات اچانک ملنے والے ایک موقعے پر اسرائیلی فضائیہ نے تہران کے قلب میں ایک کمانڈ سینٹر کو نشانہ بنایا جس میں علی شادمانی مارے گئے۔ جو ایرانی فوج کے جنگی کمانڈر اور رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کے قریبی ساتھی تھے۔‘
جی سیون کی اسرائیل کی حمایت، مشرق وسطیٰ میں ’کشیدگی کے خاتمے‘ پر زور
گروپ آف سیون (جی سیون) ممالک نے پیر کی شب جاری ہونے والے اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں ایران اسرائیل جنگ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی ’کشیدگی کے خاتمے‘ پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اجلاس کے بعد میزبان کینیڈا کی جانب سے جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا: ’ہم پر زور دیتے ہیں کہ ایرانی بحران کا حل مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر موجود کشیدگی میں کمی کا باعث بنے، جس میں غزہ میں جنگ بندی بھی شامل ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کو ’اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘ اور ’شہریوں کے تحفظ کی اہمیت‘ پر زور دیا گیا، کیوں کہ بڑھتے ہوئے حملوں میں دونوں جانب شہریوں کی جانیں جا رہی ہیں۔
صنعتی جمہوری ممالک کے اس گروپ، جس میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکہ شامل ہیں، کے رہنماؤں نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ ایران ’کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کی جی سیون سربراہ اجلاس چھوڑ کر امریکہ واپسی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیر کو کینیڈا میں ہونے والا گروپ سیون سربراہ اجلاس چھوڑ کو امریکہ واپس چلے گئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پہاڑی تفریحی مقام کاناناسکس میں جی سیون رہنماؤں کے ساتھ گروپ فوٹو کے موقعے پر انہوں نے کہا: ’مجھے جتنی جلدی ہو سکے واپس جانا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ کل بھی یہاں رہوں، لیکن (سب) جانتے ہیں کہ یہ بہت بڑا معاملہ ہے۔‘
کینیڈا اور یورپی رہنماؤں نے امید ظاہر کی ایران اسرائیل بحران پر جی سیون کا مشترکہ بیان تیار کیا جائے گا، لیکن سفارت کاروں کے مطابق ٹرمپ نے امریکہ کو اس میں شامل کرنے کی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی۔
ٹرمپ نے اپنی قبل از وقت واپسی کے اعلان سے قبل صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ’جیسے ہی میں یہاں سے جاؤں گا، ہم کچھ کریں گے۔‘
سب کو فوری طور پر تہران خالی کر دینا چاہیے: ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو ’فوری طورپر تہران خالی کرنے‘ پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو ان کے تجویز کردہ ’معاہدے‘ پر دستخط کر لینے چاہیے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اپنے ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ پر لکھا: ’ایران کو اس ’معاہدے‘ پر دستخط کر لینے چاہیے تھے جس پر میں نے انہیں دستخط کرنے کو کہا تھا۔ کتنی شرم کی بات ہے اور انسانی زندگی کا ضیاع۔ سیدھے الفاظ میں ایران جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔ میں بار بار یہ کہ چکا ہوں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے ایرانی شہریوں پر زور دیتے ہوئے لکھا: ’سب کو فوری طور پر تہران کو خالی کر دینا چاہیے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک اور پوسٹ میں لکھا: ’سب سے پہلے امریکہ کا مطلب بہت سی عظیم چیزیں ہیں، بشمول یہ حقیقت کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتا۔ امریکہ کو پھر سے عظیم بنائیں!‘
13 جون کو ایران پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد تہران کی جوابی کارروائیوں نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں 15 جون کو ہونے والے امریکہ ایران جوہری مذاکرات کو متاثر کیا اور ان کا انعقاد نہ ہو سکا۔ ان مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری عزائم، پابندیوں اور یورینیم افزودگی پر جاری تعطل کو ختم کرنا تھا۔
اگرچہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیلی حملوں کے حوالے سے کہا تھا کہ امریکہ اس میں ملوث نہیں تھا، تاہم ایران نے موقف اختیار کیا کہ امریکہ اس حملے کے ’نتائج کا ذمہ دار‘ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی صدر نے 13 جون کو ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’ہم نے انہیں (ایران کو) موقع دیا لیکن انہوں نے فائدہ نہیں اٹھایا، میرا خیال ہے یہ شاندار (کارروائی) تھی، اُن پر جتنا سخت حملہ ممکن تھا، وہ کیا گیا اور ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ بہت زیادہ۔‘
دوسری جانب ایران نے اس سے قبل دھمکی دی تھی کہ اگر تنازع ہوا تو وہ امریکی اڈوں پر حملہ کر دے گا۔
ایران جوہری پروگرام کو اپنا ’ناقابل گفت و شنید‘ حق قرار دیتا ہے جبکہ واشنگٹن نے اسے ایک ’سرخ لکیر‘ کہا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کہہ چکے ہیں کہ یورینیم کی افزودگی ایران کے جوہری پروگرام کی ’کنجی‘ ہے اور واشنگٹن کو اس معاملے پر ’بولنے کا کوئی حق نہیں۔‘
فی الحال ایران یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے، جو 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے اور اگرچہ یہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح تک نہیں پہنچا، لیکن اس کے قریب ضرور ہے۔
مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں، جبکہ تہران اصرار کرتا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
دوسری جانب قوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے (12 جون) کو باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا کہ ایران اپنی جوہری ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہا۔
ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر پھر حملے
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے پانچویں روز دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے اعلان کیا کہ پیر کی شب اسرائیل کو نئے میزائل حملوں سے نشانہ بنایا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سرکاری ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ ’مقبوضہ علاقوں (اسراائیل) پر میزائلوں کا نیا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔‘
دوسری جانب اسرائیل نے بھی ایران میں میزائل حملے کیے ہیں۔
اے ایف پی نے اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ایرانی حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں اب تک کم از کم 24 افراد کی موت ہوئی اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب ایرانی حکام کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 224 اموات ہوئی ہیں، جن میں اعلیٰ فوجی کمانڈر، جوہری سائنس دان اور عام شہری شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے پیر کی شام ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اسرائیل ’ایک کے بعد ایک‘ ایران کی سکیورٹی قیادت کو ختم کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مشرق وسطیٰ کا چہرہ بدل رہے ہیں اور یہ خود ایران کے اندر بنیادی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔