جدید دور میں کتابوں کی فروخت بڑے پیمانے پر نہ ہونے باوجود کراچی کی قدیم بازار جونا مارکیٹ میں 75 سالہ حبیب حسین عباسی اردو، انگریزی، عربی، فارسی، سندھی سمیت مختلف زبانوں کی تقریباً پانچ ہزار کتب رکھنے والے عباسی کتب خانے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حبیب حسین عباسی کے مطابق ’عباسی کتب خانہ 1910 میں ان کے نانا غلام عباس داؤد نے شروع کیا اور وہ خود اس کتب خانے پر گذشتہ 65 سالوں سے کام کر رہے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے حبیب حسین عباسی نے بتایا کہ ان کے والد 1920 اور 1925 کے درمیاں ریاست گوالیار سے کراچی منتقل ہوئے تھے اور کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے کتب خانہ چلانا شروع کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حبیب حسین عباسی کے مطابق: ’میں اس وقت سندھ مدرستہ الاسلام سکول میں زیر تعلیم تھا اور سکول کے بعد دو بجے تک کتب خانے آ جاتا اور والد کی مدد کرتا تھا۔
’اس وقت کراچی میں کتابیں کم شائع ہوتی تھی، زیادہ تر کتابیں اس وقت کے ہندوستان کے مختلف شہروں بشمول لکھنئو، دہلی، کانپور، کلکتہ، ممبئی سے چھپ کر آتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں گذشتہ 65 سالوں سے اس کتب خانے پر کام کررہا ہوں۔ جس دن کتب خانے نہ آؤں تو سکون نہیں ملتا۔‘
حبیب حسین عباسی کے مطابق ’کسی شخص کو کسی کتاب کی تلاش ہو اور وہ کتاب عباسی کتب خانے پر نہ ملے، ایسا ممکن نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اس وقت کتب خانے میں تقریباً پانچ ہزار کتابیں ہیں۔‘
بقول حبیب حسین عباسی: ’اس بازار میں ماضی میں ایک درجن کتب خانے تھے۔ مگر اب صرف ایک یا دو کتب خانے بچے ہیں۔
’اس وقت بھی لوگوں میں کتب بینی کا شوق ہے مگر کتاب خریدنے کا رجحان نہیں، اب کتابیں آن لائین موجود ہیں۔ پبلشر بھی اپنی کتابیں آن لائن فروخت کرنے لگے ہیں تو جس کو جو کتاب چاہیے ہوتی وہ آن لائن منگوا لیتا ہے، اس لیے کتب خانے اب بند ہو رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ہر سال کتب میلہ لگتا ہے، جہاں تمام پبلشر اپنے سٹال لگاتے ہیں، وہاں کتابوں کی خریداری کرنے والوں کے لیے آسانی ہو جاتی ہے۔
عباسی کتب خانے پر کتابوں کی فروخت پر گفتگو کرتے ہوئے حبیب حسین عباسی نے کہا کہ ’کبھی تین، چار یا پانچ گاہک آ جاتے ہیں، مگر اس سے دکان کا خرچہ بھی نہیں نکلتا۔‘
ان کے مطابق: ’یہاں بیٹھنے کی عادت ہو گئی ہے، اس لیے جب تک ممکن ہے میں اس کتب خانے کو چلاؤں گا۔
’اس کے بعد کیا ہو گا، اس کا بھی میں آج کل سوچ رہا ہوں کیونکہ میری اولاد اس کتب خانے کو چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔‘