امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک کانگریس مین کی جانب سے نیویارک کے میئر کے امیدوار ظہران ممدانی پر ہاتھ سے چاول کھانے پر تنقید نے شدید ردعمل کو جنم دیا ہے اور ایشیا بھر کے لوگ اپنے اس رواج کے دفاع میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
ایک دوبارہ منظر عام پر آنے والے انٹرویو میں ان 33 سالہ ڈیموکریٹ امیدوار کو دکھایا گیا کہ وہ ہاتھ سے بریانی کھاتے ہوئے اپنی انتخابی مہم کے بارے میں سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔
2023 کے ’Uncivilised Media‘ کے ساتھ انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا ’امریکی سیاست میں ممنوع موضوعات — سوشلسٹ نظریات، اسلام اور فلسطین — سب کو اپنی سیاست کا حصہ بنا لیا ہے۔ آپ کی سیاست میں فلسطین کیوں شامل ہے؟‘
منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں ممدانی نے جواب دیا ’جب آپ خاص طور پر تیسری دنیا میں پروان چڑھتے ہیں، تو آپ کو فلسطینی جدوجہد کی ایک بہت مختلف سمجھ حاصل ہوتی ہے۔‘
تاہم یہ بظاہر معمولی سی اور لاکھوں لوگوں کی روزمرہ کی عادت — ہاتھوں سے چاول کھانا — رپبلکن پارٹی کے کانگریس مین برینڈن گل کو ناگوار گزری، جنہوں نے ممدانی سے کہا کہ اگر وہ ہاتھ سے چاول کھانا چاہتے ہیں تو ’تیسری دنیا واپس چلے جائیں۔‘
برینڈن گل نے پیر کو یہ کلپ ایکس پر شیئر کیا اور ایک ایسا تبصرہ کیا جس میں اشارہ دیا گیا کہ چمچ یا کانٹے کے علاوہ کسی اور طریقے سے چاول کھانا امریکی تہذیب کے خلاف ہے۔
Zohran says his worldview is inspired by the 3rd world while eating rice with his hands pic.twitter.com/FDaQfcNSJv
— End Wokeness (@EndWokeness) June 29, 2025
انہوں نے لکھا ’امریکہ میں مہذب لوگ اس طرح نہیں کھاتے۔ اگر آپ مغربی روایات اپنانے سے انکار کرتے ہیں تو واپس تیسری دنیا چلے جائیں۔‘
ایکس صارفین کی جانب سے برینڈن گل کو فوری تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے کچھ نے ان کی انڈین نژاد بیوی ڈینیئل ڈی سوزا کا حوالہ دیا، جو قدامت پسند سیاسی مبصر ڈینیش ڈی سوزا کی بیٹی ہیں۔
تاہم برینڈن گل کے سسر بھی اس بحث میں کود پڑے اور ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ کھانا کھا رہے ہیں اور لکھا ’ممدانی کے لیے ثقافتی سبق: ہاتھ سے کھانا اس وقت قابل قبول ہے جب روٹی، نان یا پیزا ہو۔ سوپ، میٹ لوف یا میشڈ پوٹیٹوز کے لیے نہیں۔
’انڈیا میں کبھی کبھار لوگ چاول ہاتھ سے کھاتے ہیں لیکن یہ زیادہ تر دیہی علاقوں میں ہوتا ہے۔ امریکہ میں اسے غلیظ سمجھا جاتا ہے۔‘
برینڈن گل کی اہلیہ نے بھی اپنے شوہر کی حمایت میں پوسٹ کی اور لکھا ’میں نے کبھی ہاتھ سے چاول نہیں کھائے اور ہمیشہ کانٹے کا استعمال کیا ہے۔
’میں امریکہ میں پیدا ہوئی، ایک عیسائی ماگا محب وطن ہوں۔ میرے والد کے رشتہ دار انڈیا میں رہتے ہیں، وہ بھی عیسائی ہیں اور کانٹے سے کھاتے ہیں۔ اس معاملے پر توجہ دینے کا شکریہ۔‘
Many countries in the Middle East, Africa, South Asia, and parts of Southeast Asia practice eating with hands as a traditional custom.
— Laurence (Larry) Boorstein (@LarryBoorstein) June 30, 2025
ممدانی، جو انڈین والدین کے ہاں یوگنڈا میں پیدا ہوئے، اگر منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ نیویارک سٹی کے پہلے مسلم اور انڈین نژاد میئر ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منگل کو نیویارک سٹی الیکشن بورڈ نے ان کی ڈیموکریٹک پرائمری میں جیت کی تصدیق کی، جس سے نومبر کے میئرال انتخاب میں ان کی نامزدگی کی راہ ہموار ہو گئی۔
کئی افراد نے چاول ہاتھ سے کھانے پر تنقید کو ’منافقت‘ قرار دیا، جب کہ امریکی عوام خود برگر، ٹاکو، فرنچ فرائز اور پیزا ہاتھ سے کھاتے ہیں۔
ایک ایکس صارف نے لکھا ’مشرق وسطیٰ، افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک میں ہاتھ سے کھانا رواج ہے۔‘
ایک صارف نے لوومر کے ممدانی سے متعلق تبصرے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ’انہوں نے کچھ پیسوں کے لیے ایک لائیو شو میں کتے کا کھانا کھایا، مگر ممدانی کو ہاتھوں سے چاول کھانے پر غیر مہذب کہہ رہی ہے۔
’یہ منافقت قابلِ دید ہے۔ اربوں لوگ روزانہ ہاتھ سے کھاتے ہیں۔ اسے ’غیر مہذب‘ کہنا سراسر نسل پرستی ہے۔‘
یہ صارف دائیں بازو کی سیاسی کارکن کی اُس ویڈیو کا حوالہ دے رہا تھا جس میں وہ ایک کتے کے کھانے کی پروڈکٹ چکھ رہی ہیں، جسے انہوں نے ’ایک زبردست کمپنی‘ سے منسوب کیا — وہ کمپنی ماگا نظریات کی حمایت کرتی ہے اور قدامت پسندوں میں مقبول پلیٹ فارم ’رَمبل‘ پر پسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔
ممدانی کی جیت کے اگلے دن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں ’سو فیصد کمیونسٹ پاگل‘ قرار دیا جب کہ رپبلکن پارٹی کی کانگریس مہم نے وعدہ کیا کہ اگلے سال کے وسط مدتی انتخابات میں وہ انہیں ہر کمزور ڈیموکریٹ سے جوڑیں گے۔
ممدانی کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد ’لوگوں کو دوبارہ ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف لانا‘ ہے۔
© The Independent