ظہران ممدانی کی نیویارک کے میئر کے لیے انتخابی مہم کیسے مختلف ہے؟

ظہران 2021 سے نیویارک کی ریاستی اسمبلی کے رکن ہیں۔ وہ 1991 میں یوگینڈا میں ایک انڈین شخص کے ہاں پیدا ہوئے۔

امریکہ کی اہم ریاست نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کوومو نے نیویارک شہر کے میئر کے انتخاب کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری انتخابات میں ظہران ممدانی سے شکست تسلیم کر لی ہے۔

اس طرح ظہران ممدانی میئر کے انتخاب میں اس کامیابی کے بعد باقاعدہ ڈیموکریٹ امیدوار منتخب ہو گئے ہیں۔ اگر وہ نومبر میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ نیویارک کے پہلے مسلمان اور پہلے جنوبی ایشیائی میئر ہوں گے۔

33 سالہ ظہران نیویارک شہر کے میئر کے عہدے کے لیے ایک مضبوط مہم چلا رہے ہیں۔ ان کی مہم نے نہ صرف ان کے حریفوں کو مایوس کیا ہے بلکہ ان میں حسد بھی پیدا کیا ہے۔

ظہران 2021 سے نیویارک کی ریاستی اسمبلی کے رکن ہیں۔ وہ 1991 میں یوگینڈا میں ایک انڈین شہری کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ جانی مانی انڈین امریکی فلم ساز میرا نائر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلم اور ویڈیو شاید اسی وجہ سے ان کے جین میں ہے جو ان کی ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے۔ ظہران کی مہم کی اہم بات ان کا سوشل میڈیا کا ماہرانہ استعمال ہے۔ ان کے ہزاروں رضاکار ان سے ’ویڈیوز‘ کے ذریعے جڑے ہیں۔ ان کے ووٹر زیادہ تر جوان، تعلیم یافتہ اور سفید فام ہیں، جبکہ ان کے حریف کے ووٹر مختلف نسلی پس منظر سے ہیں۔

حالیہ وقتوں میں کسی امیدوار کو صرف اس وجہ سے مسترد کرنا کہ وہ سوشل میڈیا میں اچھا ہے، سنگین سیاسی غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم اب جان چکے ہیں کہ ایک امیدوار جو اپنی کہانی کو تخلیقی طور پر انٹرنیٹ پر بیان کر سکتا ہے، اسی کا پلڑا بھاری رہے گا۔

ظہران کو اپنی مادری زبان سے فائد اٹھانا بھی آتا ہے۔ ان کی مہم کے اشتہارات ٹک ٹاک کلپس اور ہپ ہاپ ویڈیوز کے ملاپ کی یاد دلاتے ہیں۔ گرافکس ایسے ہیں جیسے 60 کی دہائی کے بیٹ مین ٹی وی سیریز سے لیے گئے ہوں۔ وہ ان اشتہارات میں عجیب زاویوں سے سڑک کے کونوں اور شاورما کے سٹینڈز پر ویڈیو کے فریم میں اور ٹیکسی ڈرائیوروں سے بات کرنے کے لیے اچانک نمودار ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے پاکستانی چینل کو بھی انٹرویو دینا ضروری سمجھا۔ حالانکہ تنگ نظر لوگ کہہ سکتے ہیں کہ نیویارک سے ہزاروں میل دور پاکستان سے ان کا کیا لینا دینا، لیکن اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انتخابات میں ہر ووٹ اہم ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا وہ جگہ ہے جہاں کئی ووٹر فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا اس سیاست دان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ پاکستان میں بھی سیاسی تلاطم سوشل میڈیا کی وجہ سے پیدا ہوا اور ایکس کی طویل بندش کا سبب بنا۔

ظہران کا دعویٰ ہے کہ وہ اور ان کے رضا کار ووٹ مانگنے کے لیے دس لاکھ دروازوں پر دستک دیں گے، وہ یہ ہدف حاصل کر سکیں یا نہیں، لیکن اس مہم کی کہانی لاکھوں لوگوں تک آن لائن پہنچ چکی ہے، جس نے ان کی مہم کو ایک تحریک میں تبدیل کرنے میں مدد دی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل