24 ستمبر 1844 کی بات ہے۔ دو ملکوں کے درمیان کرکٹ میچ کھیلا جا رہا ہے۔ 20 ہزار کے لگ بھگ تماشائی میدان میں موجود ہیں، جو اپنی اپنی ٹیموں پر شرطیں لگا رہے ہیں۔
ان شرطوں کی مالیت ایک لاکھ ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے (جو آج کے حساب سے 41 لاکھ ڈالر سے زیادہ بنتے ہیں)۔ باؤنڈری لائن پر اشتہار لگائے گئے ہیں، جن سے 10 ہزار ڈالر کی آمدن ہوئی ہے اور جیتنے والی ٹیم کے لیے ایک ہزار ڈالر کی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔
اس میچ کی تفصیلات امریکہ بھر کے اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیں، بلکہ کچھ اخباروں نے تو خصوصی ضمیمے تک چھاپ ڈالے ہیں۔
اس میچ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نہ صرف کرکٹ کا پہلا بین الاقوامی میچ ہے بلکہ کسی بھی کھیل میں دو ملکوں کے درمیان کھیلا جانے والا پہلا میچ بھی ہے۔
لیکن یہ خاص بات مزید خاص ہو جاتی ہے جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ کرکٹ میچ انگلستان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ یا ویسٹ انڈیز میں نہیں بلکہ نیویارک میں کھیلا گیا اور اس میں حصہ لینے والے ملک کینیڈا اور امریکہ تھے۔
یہ میچ اصلاً تو دو روزہ تھا، مگر خراب موسم کی وجہ سے اسے تیسرے دن تک توسیع دینی پڑی۔
کینیڈا نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 32 اووروں میں 82 رنز بنائے۔ آج کے ٹی 20 اور ٹی 10 کے متوالوں کو شاید بیٹنگ کا یہ انداز کچھوے کی رفتار کے برابر لگے۔
لیکن یاد رہے کہ وہ زمانہ اور تھا، وکٹیں اور تھیں، بیٹ اور تھے، باؤنڈریاں لمبی تھیں وغیرہ وغیرہ۔
کینیڈا کا سکور کچھ زیادہ نہیں تھا مگر اس کے تعاقب میں امریکہ صرف 64 رنز پر ڈھیر ہو گیا۔ دوسری اننگز میں کینیڈا نے 63 پر آؤٹ ہو کر امریکہ کو جیت کے لیے صرف 81 رنز کا ہدف دیا۔
لیکن پتہ نہیں وکٹ میں کوئی ایسی بات تھی یا اس زمانے کے بولر ہی اتنے خوفناک ہوا کرتے تھے کہ امریکہ 58 پر آل آؤٹ ہو گیا اور کینیڈا نے یہ میچ 23 رنز سے جیت لیا۔
شاید کچھ لوگوں کو یہ بات بہت حیرت انگیز لگے کہ کرکٹ کا پہلا میچ امریکہ میں کیسے کھیلا گیا، وہاں تو آج کرکٹ دوربین لے کر ڈھونڈنی پڑتی ہے۔
لیکن اگر آپ غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ یہ کوئی اتنی حیرت کی بات بھی نہیں کہ امریکہ بہرحال برطانوی نوآبادی تھا اور انگریز جہاں گئے کرکٹ کی داستان چھوڑ گئے۔
یہی صورت امریکہ کی بھی تھی اور دراصل 1861 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی سے قبل امریکہ میں کرکٹ نہ صرف مقبول ترین ٹیم سپورٹ تھا بلکہ وہاں کا قومی کھیل بھی تھا۔
امریکہ میں کرکٹ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بعض شواہد کے مطابق خود امریکہ کے بانی جارج واشنگٹن کرکٹ کی ایک ابتدائی شکل ’وکٹس‘ کھیلا کرتے تھے۔
اسی طرح ایک اور مشہور امریکی صدر ابراہم لنکن نے 1849 میں شکاگو میں ایک کرکٹ میچ دو دن تک میدان میں جا کر دیکھا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1861 میں شروع ہونے والی امریکی خانہ جنگی سے قبل امریکہ میں کرکٹ کے متعدد کلب اور ایسوسی ایشنز قائم تھیں۔
کم از کم 22 ریاستوں میں کرکٹ میچ باقاعدگی سے کھیلے جاتے تھے اور 1859 میں ایک اخبار نے لکھا تھا کہ صرف نیویارک شہر اور اس کے گرد و نواح میں چھ ہزار سے زیادہ پروفیشنل کرکٹر بستے ہیں۔
لیکن پھر اس کمال کو زوال آ گیا اور کرکٹ ہی سے جنم لینے والے کھیل بیس بال نے امریکہ پر پوری طرح سے تسلط جما کر کرکٹ کو وہاں سے بےدخل کر دیا۔
اس کے کئی اسباب ہیں۔ ایک تو بیس بال بہت تیز رفتار کھیل ہے، جو دو تین گھنٹوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کرکٹ میچ پر کئی دن لگتے تھے۔
پھر بیس بال کے قواعد و ضوابط کرکٹ کی نسبت بہت آسان ہیں، اس کا میدان چھوٹا ہوتا ہے جو شہری علاقوں میں بھی آسانی سے بنایا جا سکتا ہے، اس کا بیٹ بہت سادہ ہوتا ہے اس لیے سستا بھی پڑتا تھا، وغیرہ وغیرہ۔
ایک اور دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ امریکہ اپنی شناخت انگلستان سے الگ بنانا چاہتا تھا۔ ان ساری وجوہات کی بنا پر 20 ویں صدی کے آتے آتے امریکہ سے کرکٹ کو قریب قریب دیس نکالا مل گیا۔
ورنہ سوچیے کہ اگر اسی زمانے میں امریکہ کو بھی ٹیسٹ رکنیت مل گئی ہوتی تو کرکٹ کا کھیل آج کہاں ہوتا۔
خیر، دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو، اب پونے دو سو سال بعد کرکٹ دوبارہ امریکہ میں جڑیں پکڑ رہی ہے اور یہاں پہلی بار ورلڈ کپ منعقد ہو رہا ہے۔
کیا پتہ آنے والے دنوں میں امریکی جارج واشنگٹن اور ابراہم لنکن کی روایت پر دوبارہ چل پڑیں۔