ظہران ممدانی اب باضابطہ طور پر نیویارک سٹی کے میئر کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار نامزد ہو گئے ہیں اور اس کا اعلان منگل کو پرائمری انتخاب کے سرکاری نتائج جاری کرتے ہوئے کیا گیا۔
33 سالہ، خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ کہلانے والے ممدانی نے اپنے قریبی حریف، سابق گورنر اینڈریو کوومو کو نمایاں فرق سے شکست دی۔ تیسرے مرحلے کی گنتی میں ممدانی نے 56 فیصد جبکہ کوومو نے 44 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
چونکہ 25 جون کو ہونے والے پرائمری میں کسی بھی امیدوار نے واضح اکثریت حاصل نہیں کی تھی، اس لیے انتخابی حکام نے کم ووٹ حاصل کرنے والے امیدواروں کو خارج کر کے رینکڈ-چوائس ووٹنگ کے تحت دوبارہ گنتی کی۔
تاہم جب ممدانی نے ابتدائی طور پر ہی 43 فیصد ووٹ حاصل کر لیے، تو جنسی سکینڈل کے بعد واپسی کی کوشش کرنے والے کوومو نے مکمل نتائج کا انتظار کیے بغیر رات ہی کو شکست تسلیم کر لی — جو ڈیموکریٹس کے لیے حیران کن نتیجہ تھا۔
اسرائیل کے بھرپور حامی کوومو انتخابی دوڑ کے زیادہ تر عرصے میں پولز میں آگے رہے، انہیں سابق صدر بل کلنٹن سمیت بااثر اعتدال پسند شخصیات کی حمایت بھی حاصل تھی۔
منگل کو ممدانی نے کہا: ’ڈیموکریٹس نے واضح پیغام دیا ہے۔ ایک قابل برداشت شہر، مستقبل کی سیاست، اور ایسا رہنما جو آمریت کے بڑھتے خطرات کے خلاف لڑنے سے نہ ڈرے۔‘
یوگنڈا میں جنوبی ایشیائی والدین کے ہاں پیدا ہونے والے ممدانی، جو اس وقت نیویارک سٹیٹ اسمبلی کے رکن ہیں، اگر نومبر میں عام انتخابات جیت جاتے ہیں تو نیویارک سٹی کے پہلے مسلم میئر ہوں گے۔
رائے عامہ کے موجودہ جائزوں میں وہ موجودہ میئر ایرک ایڈمز اور رپبلکن امیدوار کرٹس سلوا سے آگے ہیں۔
ایڈمز 2021 میں ڈیموکریٹ کے طور پر منتخب ہوئے تھے، لیکن اس بار آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔ ممدانی اور دیگر ناقدین نے ایڈمز پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو امیگریشن چھاپوں کی اجازت دی تاکہ ان کے خلاف وفاقی بدعنوانی کے مقدمات دبائے جا سکیں۔
کوومو ابھی بھی آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے پر غور کر رہے ہیں۔
’ہم نے سب کی امیدیں توڑ دیں‘
یہ مقابلہ ممدانی کو گمنامی سے نکال کر قومی سطح پر لے آیا ہے، جہاں ڈیموکریٹس کے درمیان بحث جاری ہے کہ آیا وہ بہت زیادہ بائیں بازو کے ہیں۔ کیونکہ ان کی تجاویز میں کرائے میں اضافہ روکنا، امیروں اور کمپنیوں پر زیادہ ٹیکس، مفت بس سروس، اور یونیورسل چائلڈ کیئر شامل ہیں یا وہی شخص ہیں جو صدر ٹرمپ کے ’میگا‘ ایجنڈے کا مؤثر جواب دے سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتوار کو این بی سی سے ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کمیونسٹ ہیں تو ممدانی نے انکار کیا۔
انہوں نے کہا: ’میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں ارب پتی ہونے چاہییں۔‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا: ’میں سب کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں۔‘
رپبلکنز کی جانب سے شدید تنقید کی قیادت خود ٹرمپ کر رہے ہیں، جنہوں نے منگل کو کہا: ’سچ کہوں تو، میں نے سنا ہے کہ وہ مکمل پاگل ہیں۔‘
ممدانی — جو سوشل میڈیا کا نہایت اچھا استعمال جانتے ہیں اور جن کی انتخابی ویڈیوز نے ان کی عوامی رسائی کو اجاگر کیا اور لاکھوں بار دیکھی گئیں — نے منگل کو ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے سٹیبلشمنٹ کو چونکا دیا اور ایک ایسی مہم کے ذریعے سیاسی نقشہ دوبارہ ترتیب دیا جو محنت کش عوام کی ضروریات پر مرکوز تھی۔‘
انہوں نے نشاندہی کی کہ 2024 کے انتخابات میں ٹرمپ کو نیویارک سٹی میں غیر معمولی حمایت ملی اور بتایا کہ انہوں نے اقلیتوں، محنت کش طبقے اور تارکین وطن کی بستیوں میں بلا توقف مہم چلائی، جس سے ناراض ووٹرز کو دوبارہ ڈیموکریٹک کیمپ میں لایا جا سکا۔
ممدانی نے کہا: ’ہم ان ووٹروں کو واپس لا سکتے ہیں جنہیں سب نے نظر انداز کر دیا — اگر ہم انہیں صرف یہ نہ بتائیں کہ کس کے خلاف ووٹ دیں، بلکہ یہ بھی بتائیں کہ وہ کس کے حق میں ووٹ دیں۔‘
’ہم نے سب کی توقعات توڑ ڈالیں — یہاں تک کہ اپنی بھی۔‘