آبنائے ہرمز کو بند کرنا ایران کے مفاد میں نہیں ہے، لیکن وہاں ایسی قوتیں موجود ہیں، جو اس میں خلل ڈال سکتی ہیں۔ یہ ایک بار بار زیرِ بحث آنے والا موضوع ہے، لیکن اس سے جڑے سوالات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ایران آبنائے ہرمز کو بند نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کے مفاد میں ہے کہ وہ اسے بند کرے یا وہاں کوئی مسئلہ پیدا کرے۔
البتہ ایران کے کچھ دھڑے یا مختلف خطوں میں موجود اس کے ایجنٹ بعض مسائل ضرور پیدا کر سکتے ہیں، جیسے کچھ جہازوں پر حملہ کرنا یا سمندر میں بارودی سرنگیں بچھانا۔
اگر ایرانی حکومت آبنائے ہرمز میں جہاز رانی میں رکاوٹ ڈالنے کا فیصلہ بھی کرے تو وہ صرف بہت مختصر عرصے کے لیے ایسا کر سکے گی، کیونکہ اس علاقے میں امریکی، یورپی، انڈین اور خلیجی بحری جہاز موجود ہیں، جو ایرانی افواج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیں گے اور کسی بھی زمینی حملے کو ناکام بنا دیں گے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ محض اسرائیلی حملے اور اس کے جواب میں ایرانی کارروائی سے خلیج میں جہاز رانی کے خطرات میں اضافہ ہو جائے گا، جہازوں کی انشورنس کی قیمت بڑھ جائے گی اور تیل کی قیمتیں بھی اوپر چلی جائیں گی۔
آبنائے ہرمز کی اہمیت
روزانہ دو کروڑ سے زیادہ بیرل تیل اس آبنائے سے گزرتا ہے، جو عالمی سمندری تیل کی تجارت کا تقریباً 30 فیصد اور دنیا کے کل تیل کے استعمال کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔
اسی طرح تقریباً 8 کروڑ 50 لاکھ ٹن مائع قدرتی گیس (ایل این جی) بھی سالانہ یہاں سے گزرتی ہے، جو عالمی ایل این جی تجارت کا تقریباً 21 فیصد ہے۔
ماہانہ ایک ہزار سے 1200 تک جہاز اس آبنائے سے گزرتے ہیں۔ اس خطے کی زیادہ تر درآمدات، جن میں گندم، خوراک، الیکٹرانکس، گاڑیاں، گھریلو آلات، مشینری، اسلحہ، دھاتیں اور تعمیراتی سامان شامل ہیں، اسی راستے سے آتی ہیں۔
تیل کے علاوہ کچھ اور برآمدات، جیسا کہ ایران کی زرعی مصنوعات، بھی اسی راستے سے بھیجی جاتی ہیں۔ ایران کی بحری درآمدات کا بڑا حصہ بھی اسی آبنائے کے ذریعے آتا ہے۔
آبنائے میں بحران کا اثر
تفصیل میں جانے سے پہلے ہمیں دو باتوں میں فرق کرنا ہو گا: آبنائے کو مکمل بند کرنا اور آبنائے میں مسائل پیدا کرنا۔
آبنائے ہرمز کو مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر بند نہیں کیا جا سکتا:
۔ یہ آبنائے بہت چوڑی ہے اور ایران اسے بند نہیں کر سکتا، خاص طور پر اس لیے کہ جہاز رانی کے مخصوص راستے عمان کے علاقے میں آتے ہیں، کیونکہ وہاں گہرائی زیادہ ہے۔
خلیج میں داخل ہونے والے جہاز دو میل چوڑی پٹی سے گزرتے ہیں اور باہر نکلنے والے بھی اسی چوڑائی کی دوسری پٹی سے نکلتے ہیں اور ان کے درمیان دو میل کا فاصلہ ہوتا ہے۔
یہاں اگر کوئی جہاز بھی ڈوب جائے تو جہاز رانی بند نہیں ہو گی، کیونکہ یہاں پانی کی گہرائی کافی زیادہ ہے۔
۔ اس آبنائے کی حفاظت کے لیے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور انڈیا سمیت کئی ملکوں کے جنگی بحری جہاز بین الاقوامی پانیوں میں تعینات ہیں۔
اسی طرح بحرین میں قائم 34 ملکوں کا بین الاقوامی اتحاد بھی خلیج اور آبنائے میں جہاز رانی کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔
عسکری تجزیے بتاتے ہیں کہ ایرانی بحریہ چند گھنٹوں کے لیے آبنائے کو بند کر سکتی ہے، لیکن اس کے بعد وہ بین الاقوامی افواج کے دباؤ پر پسپا ہو جائے گی۔ اس سے ایرانی بحریہ مکمل طور پر تباہ بھی ہو سکتی ہے۔
۔ ایران کے لیے آبنائے کو بند کرنا خود اس کے لیے فائدہ مند نہیں کیوں کہ اس کی زیادہ تر برآمدات اور درآمدات اسی راستے سے گزرتی ہیں، جن میں وہ خوراک بھی شامل ہے جو ایرانی عوام روز استعمال کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوں اگر ایران آبنائے بند کرے تو خود بھی اس کے شکنجے میں آ جائے گا، مگر دوسروں کا گلا نہیں گھونٹ سکے گا۔
۔ آبنائے کی بندش سے سب سے زیادہ نقصان ایران کو اور اس کے اتحادیوں کو ہو گا، خاص طور پر چین کو۔ کیونکہ خلیج سے برآمد ہونے والا زیادہ تر تیل اور گیس ایشیا کو جاتا ہے، نہ کہ امریکہ یا برطانیہ کو۔
اعداد و شمار کے مطابق آبنائے ہرمز سے برآمد ہونے والے 83 فیصد تیل کا خریدار ایشیا ہے اور صرف 7.5 فیصد یورپ جاتا ہے۔ اسی طرح مائع قدرتی گیس کا 87 فیصد ایشیا کو جاتا ہے۔
گویا اگر ایران جہاز رانی روک دے تو اپنے دوستوں کو ناراض کرے گا۔
۔ اقتصادی پابندیوں کے سبب ایرانی حکومت کو مالی وسائل کی شدید ضرورت ہے اور اگر تیل اور پیٹروکیمیکل کی برآمد بند ہوئی تو حکومت کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
اس لیے وہ ایسی کسی پالیسی کی طرف نہیں جائے گی جو خود اس کے وجود کے لیے خطرہ ہو۔
حکومت اور نظام میں فرق
ایرانی حکومت سے ایسے کسی اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی جو خلیجی ممالک اور ان ایشیائی ملکوں کے ساتھ اس کے تعلقات بگاڑے، یا اس کی ساکھ کو نقصان پہنچائے۔ لیکن، یاد رکھیے کہ یہاں بات ’حکومت‘ کی ہو رہی ہے، ’نظام‘ کی نہیں۔
ایران کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں ایک سرکاری حکومت ہے اور اس کے اردگرد طاقتور غیرسرکاری اداروں کے گروہ ہیں، جو مل کر ’نظام‘ تشکیل دیتے ہیں۔ ان کے مفادات اکثر ایک دوسرے سے مختلف یا متصادم ہوتے ہیں۔
مثلاً پاسدارانِ انقلاب کے مفادات اور حکومت یا ایرانی ریاست کے مفادات میں واضح فرق ہے۔ یہی غیر سرکاری گروہ ایران کی بین الاقوامی تیل تجارت اور غیر تیل تجارت، بشمول تہران کی درآمدات پر قابض ہے۔
امریکہ اور یورپ کی پابندیاں توڑ کر ہونے والی تمام تجارت پاسدارانِ انقلاب کے ہاتھ میں ہے، جو ہر سال اربوں ڈالر کماتے ہیں۔
اگر امریکہ اور یورپ سے کوئی معاہدہ ہو جائے اور تجارت معمول پر آ جائے تو پاسدارانِ انقلاب کے اربوں ڈالر داؤ پر لگ جائیں گے۔
اسی لیے وہ ہر ممکن طریقے سے ایسے کسی معاہدے میں رکاوٹ ڈالیں گے، جیسا کہ ہم ماضی میں کئی بار دیکھ چکے ہیں۔
یہ رکاوٹیں خلیج یا آبنائے میں جہازوں کو اڑانے یا سمندری تخریب کاری کی صورت میں سامنے آ سکتی ہیں۔
ایران کے خطے میں موجود ایجنٹ بھی تخریب کاری کر کے جہاز رانی میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔
تاہم یہ کارروائیاں جہازوں کی آمد و رفت بند نہیں کریں گی، صرف تاخیر کا باعث بنیں گی۔ ایسی کارروائیوں کا فوری اثر یہ ہوتا ہے کہ انشورنس کے نرخ بڑھ جاتے ہیں، جس سے خلیجی تیل اور خطے میں درآمد ہونے والی اشیا مہنگی ہو جاتی ہیں۔
مختصراً یہ کہ ایران آبنائے ہرمز کو بند نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کے مفاد میں ہے کہ وہ ایسا کرے۔
ایرانی حکومت سے ایسی کوئی کارروائی متوقع نہیں جو خلیج میں جہاز رانی کو نقصان پہنچائے۔ البتہ ایرانی نظام سے وابستہ دھڑے، نہ کہ حکومت، خلیج اور آبنائے میں تخریب کاری کی کارروائیاں کر سکتے ہیں، جو جہازوں کی آمد و رفت میں خلل ڈال سکتی ہیں۔
رہی بات تیل کی قیمتوں کی، تو وہ آج گر چکی ہیں، جیسا کہ اس تحریر کے مصنف نے گذشتہ جمعے سے پیش گوئی کی تھی، لیکن جنگ کے جاری رہنے کا مطلب یہ ہے کہ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ برقرار رہے گا۔
نوٹ: یہ تحریر پہلے انڈپینڈنٹ عربیہ پر شائع ہوئی تھی۔ اس کے مصنف انس بن فیصل الحجی ماہرِ معاشیات ہیں، جن کا اختصاص توانائی کے شعبے میں ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔