اسرائیل کی جانب سے ایران پر جارحیت نے مشرق وسطیٰ میں ایک خطرناک صورت حال پیدا کر دی ہے، جسے جمعے کو او آئی سی نے ایرانی خودمختاری اور بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا ہے جب کہ اتوار کو بھی او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طٰہ نے اس کی شدید مذمت کی۔
اس بلا اشتعال حملے میں ایران کی سالمیت اور خودمختاری کو براہ راست نشانہ بنایا گیا اور یہ تقریباً طے تھا کہ ایران کی طرف سے اسرائیل کو بھرپور جواب دیا جائے گا۔
اسرائیل اور ایران کی عسکری طاقت کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن شاید پہلی دفعہ ایران کے جوابی حملوں نے اسرائیل کو نقصان پہنچایا۔ ایک ایسے وقت میں جب ایران کے جوہری پروگرام کو لے کر امریکہ مذاکرات کے چھٹے دور کا آغاز کا اعلان چکا تھا، اسرائیل کی جانب سے براہ راست حملے کا بنیادی مقصد ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہی تھا کیونکہ وہ ایران کے ساتھ کسی بھی ڈیل کے حق میں نہیں۔
اگرچہ امریکہ نے اسرائیلی حملے سے خود کو لا تعلق رکھا لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ حملہ امریکی کی مرضی کے بغیر ہوا ہے یا امریکی انٹیلی جنس اس سے بالکل ہی بےخبر ہو۔
حملے سے تین دن پہلے تقریباً تمام امریکی میڈیا انٹیلی جس ذرائع سے رپورٹ کر چکا تھا کہ اسرائیل کسی بھی وقت ایران پر حملہ کر سکتا ہے، لیکن یہ حملہ اتنا مہلک ہو گا جس میں ایران کی ٹاپ عسکری قیادت سمیت سائنس دانوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا، اس بات کا ادراک شاید ایران کو بھی نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ برس حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل سے لے کر اعلیٰ ایرانی قیادت کو موجودہ حملے میں نشانہ بنانا ایک طرف اگر اسرائیلی طاقت اور موساد کی ایران کے اندر مضبوط زمینی انٹیلی جنس کی جانب اشارہ کرتا ہے، دوسری جانب ایرانی انٹیلی جنس کی ناکامی بھی ظاہر کر رہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو اس حملے سے ایران اور امریکہ کے مذاکرات سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہوئے تو دوسری جانب اسرائیل میں گرتی ہوئی ان کی سیاسی ساکھ سے فی الحال توجہ ہٹ جائے گی، اس حملے سے چند دن پہلے ہی پارلیمان میں وہ بمشکل چند ووٹوں سے اپنی حکومت بچا پائے تھے۔
ورنہ وہ اگر امن چاہیں تو مشرقِ وسطیٰ کے کئی ملکوں سے ان کے اچھے تعلقات ہیں، اس لیے اگر وہ چاہیں تو مشرق وسطیٰ میں چند دنوں میں امن قائم ہو سکتا ہے، لیکن غزہ سے لے اب ایران پر براہ راست حملے نے ایک چیز واضح کر دی ہے کہ اسرائیل کے لیے اپنے مختصر اور طویل وقتی مقاصد حاصل کرنا اہم ہے نہ کہ امن۔
خطے کی موجودہ صورت حال کا اثر ظاہری بات ہے پاکستان پر بھی پڑے گا۔ حالانکہ پاکستان نے کھل کر اسرائیلی حملے کی مخالفت اور ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے، لیکن اس سے بڑھ کر اگر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی یا مذاکرات کے معاملات ہوں تو اس میں پاکستان کو تنِ تنہا نہیں بلکہ باقی ممالک کے ساتھ مل کر چلنا چاہیے۔
انڈیا اور اسرائیل کے قریبی تعلقات اور گٹھ جوڑ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پاکستان کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی جنگ میں اسرائیلی جنگی ماہرین انڈیا میں موجود تھے، جب کہ جنگ میں اسرائیلی ڈرون بھی استعمال ہوئے۔
انڈیا نے اگر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کی ہے تو اسرائیل نے بھی پاکستان پر حملے کی پرزور حمایت کی تھی۔ پاکستان ایران کی سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھے گا لیکن پاکستان کے لیے اس جنگ میں کسی اور طرح سے کودنا ہمارے مفاد میں بالکل نہیں ہو گا۔
ان تین دنوں میں انڈین میڈیا اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایران کے نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن محسن رضایی کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے ویڈیوز بنا کر پاکستان کو اس جنگ میں دھکیلنے کی بھرپور کوشش کی۔
محسن رضایی سے یہ جملہ جوڑا گیا کہ پاکستان نے انہیں بتایا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر کمییائی ہتھیاروں سے حملہ کیا تو پاکستان اسرائیل پر جوابی ایٹمی حملہ کر دے گا، لہٰذا بطور میڈیا ہمیں بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور حکومتی وزرا کو بھی اپنے بیانات میں جذبات سے زیادہ سفارتی زبان اور لب و لہجے پر توجہ دینی ہو گی۔
بہتر یہی ہو گا کہ ہر وزیر مشیر کی بجائے صرف دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ کو ہی اس معاملے پر بولنے دیا جائے۔ نتن یاہو کے بھی 2011 کے پرانے ویڈیو کلپ میں رد و بدل کر کے چلوایا گیا جس میں وہ ایران کے بعد پاکستان کی باری کی بات کرتے ہیں، حالانکہ یہ بات انہوں طالبان کے تناظر میں 14 سال پہلے کہی تھی اور اس بات میں الفاظ کو دو تین جگہ سے کاٹ کر جوڑا گیا، لیکن ہمارے کچھ وزرا بغیر تحقیق کیے یہاں آستینیں چڑھا کر جواب دینا شروع ہو گئے۔ (اس انٹرویو میں سے کچھ حصے، خاص طور پر طالبان والا حصہ خود اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دفتر نے نکالا تھا، پاکستانی میڈیا نے نہیں: مدیر)
اس لیے وزیراعظم صاحب سے گزارش یہی ہے کہ موجودہ حالات میں خارجہ امور پر سوائے چند کے باقی وزرا کو تبصرے سے گریز کرنے کے احکامات دیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔
پاکستان انڈیا جنگ کے بعد اسلام آباد کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں سفارتی وفد نے جس کامیاب طریقے سے پاکستانی بیانیے کو بین الاقوامی سطح پر پیش کیا، اس کی بنیادی وجہ یہی ہی تھی کہ اس وفد میں ایسے لوگ شامل تھے جو سفارت کاری کے داؤ پیچ پر مہارت رکھتے ہیں۔ چاہے وہ بلاول بھٹو ہوں، خرم دستگیر ہوں، سینیٹر شیری رحمٰن، حنا ربانی کھر، ڈاکٹر مصدق ملک یا پھر فیصل سبزواری سب نے یہ ثابت کیا کہ اس وفد میں ان کا انتخاب درست تھا۔
بہتر یہی ہو گا کہ وزیراعظم اس وفد کو ایک باقاعدہ خارجہ امور کی کمیٹی کا درجہ دے دیں، جن سے مشاورت کے بعد ہی خارجہ امور کے فیصلے کیے جائیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔