کراچی کی تاریخی ایمپریس مارکیٹ میں آج بھی لکڑی کا روایتی کولُہو گھومتا ہے، لیکن اسے کوئی بیل نہیں بلکہ 54 سالہ عبدالطیف چلا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالطیف بتاتے ہیں کہ ایک کلو تیل نکالنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں اور سخت محنت کی وجہ سے اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے، لیکن ان کے مستقل گاہک وہی ہیں جو دیسی طریقوں پر یقین رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق ان کے پاس دو اقسام کے تیل ہوتے ہیں: ایک کھانے کے لیے اور دوسرا مالش کے لیے۔ دونوں ہی اقسام کی مانگ اب محدود ہو چکی ہے۔
وہ افسوس کے ساتھ کہتے ہیں: ’اب نہ کوئی نوجوان یہ ہنر سیکھنا چاہتا ہے، نہ ہی مارکیٹ میں روایتی تیل کی پہلے جیسی طلب باقی ہے۔ لوگ فیکٹری کا سستا تیل خرید لیتے ہیں۔ انہیں خالص تیل کی پہچان ہی نہیں رہی۔‘
ایمپریس مارکیٹ کے اِس گوشے میں عبدالطیف کا گھومتا ہوا کولُہو گویا وقت کی گردش کے خلاف ایک چھوٹی سی مزاحمت ہے — خالص تیل کے ذائقے، خوشبو اور روایت کو زندہ رکھنے کی ایک آخری کوشش۔