ایران کی آئی اے ای اے سے تعاون معطلی ناقابل قبول: امریکہ

امریکہ نے ایران کی جانب سے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کو باضابطہ طور پر معطل کرنے کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی میں ایران کے سفیر رضا نجفی 23 جون، 2025 کو آسٹریا کے شہر ویانا میں IAEA کے بورڈ آف گورنرز کے غیر معمولی اجلاس کے فوراً بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ایران نے بدھ کو اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ اپنے تعاون کو باضابطہ طور پر معطل کر دیا، جسے امریکہ نے ’ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔

گذشتہ ماہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے ایک دن بعد 25 جون کو ایرانی پارلیمان نے ویانا میں قائم آئی اے ای اے سے تعاون معطل کرنے کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیا تھا۔

بدھ کوسرکاری میڈیا نے تصدیق کی کہ یہ قانون اب نافذ ہو چکا ہے۔

ایرانی میڈیا کے مطابق اس قانون کا مقصد ’اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی مکمل حمایت‘ کو یقینی بنانا ہے، خصوصاً یورینیم افزودگی پر زور دیا گیا ہے۔

یہ اقدام گذشتہ ماہ ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ تنازعے کے بعد سامنے آیا، جس دوران اسرائیل اور امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے۔

واشنگٹن نے، جو تہران پر زور دے رہا تھا کہ وہ 13 جون کو اسرائیلی فوجی کارروائی کے باعث تعطل کا شکار مذاکرات بحال کرے، ایرانی فیصلے کی مذمت کی۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیملی بروس نے کہا ’یہ ناقابل قبول ہے کہ ایران نے آئی اے ای اے سے تعاون معطل کرنے کا انتخاب ایسے وقت میں کیا جب اس کے پاس امن اور خوشحالی کی راہ اختیار کرنے کا موقع تھا۔‘

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش کے ترجمان نے اس فیصلے کو ’واضح طور پر باعث تشویش‘ قرار دیا۔

علاوہ ازیں پینٹاگون نے بدھ کو کہا کہ امریکی انٹیلیجنس کے مطابق ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں نے اس کے جوہری پروگرام کو ایک سے دو سال تک پیچھے دھکیل دیا گیا۔

پینٹاگون کے ترجمان شان پارنیل نے صحافیوں کو بتایا ’ہم نے ان کے پروگرام کو کم از کم ایک سے دو سال تک کمزور کیا ہے — وزارت دفاع کے انٹیلیجنس اندازوں کے مطابق یہ دو سال کے قریب ہو سکتا ہے۔‘

اگرچہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو ایران کی جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل رہی تھی، تاہم تعاون کی معطلی کے بعد ان کی موجودہ حیثیت غیر واضح ہے۔

اتوار کو اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر امیر سعید ایراوانی نے کہا کہ معائنہ کاروں کا کام رک ہو چکا ہے، لیکن ان یا آئی اے ای اے کے سربراہ رفائل گروسی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔

انہوں نے کہا ’معائنہ کار ایران میں موجود اور محفوظ ہیں، لیکن ان کی سرگرمیاں روک کر دی گئی ہیں اور انہیں ہماری تنصیبات تک رسائی کی اجازت نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئے قانون میں معطلی کے بعد کے اقدامات کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔

خبر رساں ادارے ایسنا کے مطابق رکن پارلیمان علی رضا سلیمی نے کہا کہ اب معائنہ کاروں کو جوہری تنصیبات تک رسائی کے لیے ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کی منظوری درکار ہو گی۔

خبر ایجنسی مہرب کے مطابق رکن پارلیمان حمید رضا حاجی بابائی نے کہا کہ ایران جوہری تنصیبات میں آئی اے ای اے کے کیمروں کی اجازت بند کر دے گا، اگرچہ یہ واضح نہیں کہ یہ قانون کا باقاعدہ حصہ ہے یا نہیں۔

ایران کے سرکاری ٹی وی اطلاع دی کہ قانون منظور ہونے کے بعد اس کی توثیق گارڈین کونسل نے کی اور صدر مسعود پزشکیان نے بدھ کو اس پر دستخط کیے۔

جواب میں اسرائیلی وزیر خارجہ گدعون سار نے 2015 کے جوہری معاہدے کے یورپی دستخط کنندگان پر زور دیا کہ وہ ’سنیپ بیک‘ میکانزم فعال کریں اور ایران پر تمام اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ کریں۔

یہ سنیپ بیک اکتوبر میں ختم ہونے والا ہے اور یہ جوہری معاہدے کا حصہ تھا جو 2018 میں ٹرمپ کے یکطرفہ انخلا کے بعد ٹوٹ گیا تھا۔ 

ایرانی حکام نے خبردار کیا کہ سنیپ بیک کی صورت میں وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے نکل سکتے ہیں۔

اسرائیل، جسے جوہری ہتھیار رکھنے والا سمجھا جاتا ہے، اس معاہدے کا رکن نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا