روس نے جمعرات کو کہا ہے کہ اس نے افغانستان کے نئے سفیر کی اسناد کو قبول کر لیا ہے، جس سے وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا عمل دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں نتیجہ خیز دوطرفہ تعاون کو فروغ دے گا۔‘
افغان وزارت خارجہ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا کہ ملک کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی اور روسی فیڈریشن کے سفیر دیمتری ژیرنوف نے کابل میں ملاقات کی۔
مزید کہا گیا کہ ’روسی سفیر نے اس ملاقات میں روس کی حکومت کا وہ باضابطہ فیصلہ سرکاری طور پر پہنچایا، جس کے تحت روسی فیڈریشن نے افغانستان کی امارتِ اسلامیہ کو تسلیم کر لیا ہے۔‘
افغان وزارت خارجہ کے مطابق روسی سفیر نے اس فیصلے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے افغانستان اور روس کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ایک تاریخی قدم قرار دیا۔
افغان وزیر خارجہ نے روسی فیڈریشن کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اسے دونوں ملکوں کے درمیان مثبت تعلقات، باہمی احترام اور تعمیری تعاون کا نیا مرحلہ قرار دیا۔
The Ambassador of the Russian Federation, Mr. Dmitry Zhirnov, called on IEA-Foreign Minister Mawlawi Amir Khan Muttaqi.
During the meeting, the Ambassador of Russian Federation officially conveyed his government’s decision to recognize the Islamic Emirate of Afghanistan, pic.twitter.com/wCbJKpZYwm
— Ministry of Foreign Affairs - Afghanistan (@MoFA_Afg) July 3, 2025
مزید کہا گیا کہ اس موقعے پر امیر خان متقی نے کہا کہ روسی فیڈریشن کا یہ حقیقت پسندانہ فیصلہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم پیشرفت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اس اقدام کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعاون مزید وسعت پائے گا۔
اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اگست 2021 میں اقتدار میں آنے والے افغان طالبان کی حکومت کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، کیونکہ انہوں نے خواتین پر تعلیم اور ملازمت میں حصہ لینے پر پابندی سمیت اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
تاہم چین اور روس، جنہوں نے عبوری افغان انتظامیہ کے ساتھ محدود سفارتی تعلقات کو فروغ دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی، گذشتہ دو سالوں میں افغان وزرا کو چین اور وسطی ایشیا کے فورمز میں شرکت کی دعوت دے چکے ہیں۔
جبکہ رواں برس اپریل میں روس نے تقریباً 20 سال کے بعد افغان طالبان کو ’دہشت گرد تنظیموں‘ کی فہرست سے بھی نکال دیا تھا، جسے مبصرین نے عالمی سیاست کے لیے بےحد اہمیت کا حامل قرار دیا تھا۔
روس کی جانب سے یہ فیصلہ کتنا اہم ہے؟
پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے پروفیسر اور جنوبی ایشیا کے سکیورٹی اور جیو پولیٹیکل معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر عرفان اشرف روس کے اس فیصلے کو ’حیران کن‘ قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا کہ ’روس کی جانب سے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا حیرانی کی بات اس لیے ہے کہ افغان طالبان نے دوحہ معاہدے پر ابھی تک من و عن عمل نہیں کیا ہے۔‘
عرفان اشرف نے بتایا کہ افغان طالبان کی حکومت عبوری ہے، وہاں پر جمہوری حکومت ابھی تک قائم نہیں ہے اور نہ اس بات کی نفی کی جا سکتی ہے کہ افغانستان کی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔
بقول عرفان اشرف، روس، وسطی ایشیائی ممالک اور پاکستان کی جانب سے بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ افغانستان کی زمین ان کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغانستان بظاہر مختلف ممالک کے لیے ایک کاریڈور کی حیثیت رکھتا ہے، افغانستان کے عوام کے ساتھ ان ممالک کا کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ افغانستان میں اب بھی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔‘
بقول عرفان اشرف: ’یہ ممالک افغانستان کو ریاست نہیں بلکہ معاشی فائدے کے لیے ایک راستہ سمجھتے ہیں اور اسے تجارت کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے راستہ ہموار کر رہے ہیں، لیکن یہ ایک جمہوری ریاست نہیں ہے اور نہ وہاں ریاستی ساخت موجود ہے۔‘