جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں میں ’کچھ بھی اہم‘ نہیں ہوا: خامنہ ای

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل پر فتح کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک نے ’امریکہ کے منہ پر طمانچہ مارا۔‘

26 جون 2025 کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے دفتر کی طرف سے جاری کی گئی اس تصویر میں وہ اپنے پیشرو، اسلامی جمہوریہ کے مرحوم بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی کی تصویر کے سامنے قوم سے خطاب کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں (اے ایف پی)

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے جمعرات کو کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​کے دوران 22 جون کو امریکہ کی طرف سے اس کے جوہری مقامات پر حملوں کے دوران ’کچھ بھی اہم‘ نہیں ہوا۔

19 جون کو ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے خاتمے اور سیزفائر کے بعد اپنی پہلی عوامی تقریر میں ایرانی سپریم لیڈر نے کہا: ’انہوں (امریکہ) نے ہماری جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، جس پر یقیناً بین الاقوامی عدالتوں میں فوجداری مقدمے کی کارروائی بنتی ہے، لیکن انہوں نے کوئی اہم کام نہیں کیا۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حوالہ دیتے ہوئے، جنہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو ’ختم‘ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، خامنہ ای نے کہا کہ انہوں نے ’غیر معمولی طریقوں سے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور یہ ثابت ہوا کہ انہیں اس مبالغہ آرائی کی ضرورت تھی۔‘

بقول خامنہ ای:  ’جس نے بھی یہ الفاظ سنے ہیں، (وہ) سمجھ گئے ہیں کہ ان الفاظ کے پیچھے حقیقت کچھ اور ہے۔‘

ایرانی سپریم لیڈر نے اسرائیل پر فتح کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک نے ’امریکہ کے منہ پر طمانچہ مارا۔‘

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق خامنہ ای نے کہا کہ امریکہ صرف اس لیے اس جنگ میں مداخلت کر رہا تھا کیوں کہ ’اسے لگا کہ اگر اس نے مداخلت نہ کی تو صہیونی حکومت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ امریکہ کو اس جنگ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔

ایکس پر اپنی متعدد پوسٹس میں بھی ایرانی سپریم لیڈر نے اس حوالے سے بات کی۔

انہوں نے کہا کہ ’اسلامی جمہوریہ کو فتح ملی اور اس نے جواب میں امریکہ کے منہ پر طمانچہ مارا۔‘

اس بات سے ان کا اشارہ غالباً 23 جون کو قطر میں امریکی اڈے پر ایرانی میزائل حملے کی طرف تھا، جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

ایرانی سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت کہ ایران کو خطے میں امریکہ کے اہم مراکز تک رسائی حاصل ہے اور وہ جب چاہے کارروائی کر سکتا ہے۔ یہ ایک بڑی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کارروائی آئندہ بھی دہرائی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی جارحیت ہوئی تو دشمن کو لازماً بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

آیت اللہ خامنہ ای کے بیان کے بعد امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے جمعرات کو واشنگٹن میں پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ایران اپنی ساکھ کو بڑھانے کے لیے بہت کچھ کہے گا، خاص طور پر اپنے عوام کے سامنے۔۔۔ مگر ہم اس چیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ وہ کیا کرے گا۔‘

اسرائیل کے 13 جون کو ایران کی متعدد فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملوں کے نتیجے میں ایران کی عسکری قیادت، جوہری سائنس دانوں اور عام شہریوں کی موت کے بعد آپریشن ’وعدہ صادق سوم‘ کے نام سے تہران نے جوابی حملے کیے۔

اسی دوران امریکہ نے بھی 22 جون ایران کی تین ’جوہری تنصیبات‘ کو نشانہ بنایا، جس کے بعد تہران نے اگلے روز قطر میں امریکی فوجی اڈے پر میزائل داغے۔

بعدازاں 12 روز کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں 24 جون کو دونوں ملکوں میں جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا۔

اس کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ امریکی حملوں کے نتیجے میں ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔

ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔

جنگ کے دوران ایرانی رہبر اعلی خامنہ ای کہاں تھے؟

اسرائیل کی جانب سے ایران کی اہم تنصیبات پر حملے کے آغاز سے دو ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ اس دوران ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے صرف دو ویڈیو پیغام جاری کیے، چند ملاقاتیں کیں اور سوشل میڈیا نیٹ ورک ایکس پر ان سے منسوب اکاؤنٹ سے چند پیغامات ہی پوسٹ کیے گئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق ان کے دو ویڈیو پیغامات کا تکنیکی تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا جغرافیائی مقام بدل گیا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ان کے ایکس پر پیغامات کس حد تک ان کی براہ راست رضامندی سے شائع کیے گئے ہیں۔

دستیاب معلومات اس مفروضے کو تقویت دیتے ہیں کہ خامنہ ای زندہ اور صحت مند ہونے کے باوجود قابل رسائی نہیں ہیں۔ ان تک پہنچنا حتیٰ کہ حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کے لیے بھی آسان نہیں۔‘

جنگ کا سپیکٹر

چھ سال قبل اگست 2018 میں ایران میں جنگ کے امکان کے بارے میں قیاس آرائیوں کے جواب میں، علی خامنہ ای نے حقارت آمیز لہجے میں کہا تھا: ’وہ قوم اور مٹھی بھر بزدلوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے جنگ کا تماشا بڑھا رہے ہیں۔‘ لیکن جس تماشے کے بارے میں وہ بات کر رہے تھے وہ برسوں میں نہ صرف ختم نہیں ہوا بلکہ دن بدن بڑھ گیا۔

اسرائیل کا اہم ایرانی مراکز پر حملہ 13 جون کی صبح شروع ہوا۔ کئی سینیئر کمانڈروں اور جوہری محققین کی موت کے بعد خامنہ ای نے فوری طور پر نئی ​​شخصیات کی تقرری کے لیے اقدامات کیے اور چند گھنٹوں بعد اپنے پہلے ٹیلی ویژن پیغام میں انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا: ’مسلح افواج بدمعاشوں کو ظالمانہ طاقت کے ساتھ نشانہ بنائیں گی۔‘

خامنہ ای نے اسرائیل کو دھمکی دی کہ وہ اس ’عظیم جرم‘ سے نہیں بچ سکے گا اور اگرچہ انہوں نے حملہ شروع کیا لیکن اسے ختم ایران ہی کرے گا۔ تاہم، اس بیان کے بعد خامنہ ای روپوش ہوگئے۔

اگلے چند دنوں میں جنگ کا دائرہ تیزی سے پھیل گیا، جس نے ایران کے تقریباً تمام حصوں کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس دوران تہران کو حملوں کی بڑھتی ہوئی لہر کا سامنا تھا۔ اسی دوران یہ خبر بھی سامنے آئی کہ رہبر اعلیٰ کو کسی نامعلوم محفوظ پناہ گاہ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

دوسرا پیغام: منظر اور لہجے کی تبدیلی

علی خامنہ ای کا ٹیلی ویژن پر دوسرا ظہور 18 جون کو ہوا۔ جنگ کے چھٹے دن سامنے آنے والا یہ پیغام ان کے پہلے بیان سے بالکل مختلف تناظر میں تھا۔ اس پیغام میں خامنہ ای نے کہا: ’ایرانی قوم مسلط کردہ جنگ کے خلاف ثابت قدم ہے اور یہ قوم کسی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گی۔‘

اس تقریر میں جو چیز قابل ذکر تھی وہ ایرانی قائد کی طرف سے لیا گیا اہم موڑ تھا۔ اس سے پہلے انہوں نے ’اسلامی قوم‘ جیسے مذہبی تصورات پر زور دیا تھا، لیکن اس بار انہوں نے ’ایرانی قوم‘ اور ’ایرانی تاریخ‘ جیسی اصطلاحات کا سہارا لیا۔ ایرانیوں کے قوم پرست جذبے کو ابھارنے کی کوشش میں انہوں نے کہا کہ ’ذہین لوگ اس قوم سے دھمکی آمیز زبان میں بات نہیں کرتے، کیونکہ ایرانی قوم کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘

پیغام کے مواد سے زیادہ تجزیہ کاروں کی توجہ جس چیز نے حاصل کی، وہ تصویر اور آواز کا معیار تھا۔ یہ ویڈیو بصری اور صوتی طور پر خامنہ ای کے پچھلے پیغامات سے مختلف تھی۔ آواز گونجتی تھی اور روشنی غیر معمولی تھی، نشانیاں جو اس امکان کو تقویت دیتی ہیں کہ اسے زیر زمین کسی جگہ یا ہنگامی پناہ گاہ میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پیغام میں خامنہ ای نے امریکہ کو دھمکی دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر وہ جنگ میں داخل ہوا تو اسے ’ناقابل تلافی نقصان‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم اب فردو، نطنز اور اصفہان کے جوہری مقامات پر امریکی حملوں کے بعد 26 جون کو ان کا نیا بیان بھی سامنے آ گیا ہے۔

حالیہ دنوں میں خامنہ ای سے منسوب ایکس اکاؤنٹ پر صرف چند پیغامات پوسٹ کیے گئے ہیں۔ ان پیغامات میں سے ایک جو کہ قطر میں امریکی العدید اڈے پر میزائل حملے کے بعد پوسٹ کیا گیا جس میں جلتے ہوئے امریکی پرچم کی تصویر بھی تھی: ’ہم نے کسی پر حملہ نہیں کیا، اور ہم کسی کی جارحیت کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے اور ہم کسی کی جارحیت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، یہ ایرانی قوم کی منطق ہے۔‘

تاہم، یہ پیغامات نہ صرف زمینی حقیقت اور حکومتی بیانیے کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں ناکام رہے، بلکہ اس کے بعد خامنہ ای کی قسمت کے بارے میں قیاس آرائیوں میں بھی شدت آگئی۔

امریکی صدر کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد رہبر کے مشیر اور معتمد محمد مراندی نے اس خبر کی تردید کی اور بعض سرکاری ذرائع ابلاغ نے بھی کسی قسم کے معاہدے کی تردید کی، لیکن عباس عراقچی نے کہا کہ اگر دوسری جانب سے حملے بند نہ کیے گئے تو تہران بھی جنگ بندی جاری نہیں رکھے گا۔

اس خبر کے جواب میں پارلیمنٹ کے ایک رکن حامد رسائی نے ایکس پر ایک پیغام پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ’اعلان جنگ یا امن قائد کا استحقاق ہے اور جب تک وہ عوام سے کھل کر بات نہیں کرتے، کسی کی طرف سے جنگ بندی اور امن کو قبول کرنے کا دعویٰ قابل قبول نہیں، بلکہ ایک مشکوک ہیں۔‘

بالآخر، پیر کی صبح، جیسا کہ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا، جنگ بندی ہو گئی، لیکن خامنہ ای کہاں تھے اور ایران میں کس نے جنگ بندی کا حکم دیا تھا، اس بارے میں قیاس آرائیاں بڑھ گئیں، خاص طور پر جب سے خامنہ ای کی غیر موجودگی اور مبینہ بنکر میں موجودگی کے حوالے سے اشارے اور حوالہ جات شروع ہو گئے تھے۔

قیادت دستیاب نہیں

جون کے آخر میں ایک رپورٹ کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کینیڈا میں جی سیون سربراہی اجلاس کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کیا اور تجویز پیش کی کہ استنبول میں ایران اور امریکہ کے حکام کے درمیان ایک سفارتی حل تلاش کرنے کے لیے فوری ملاقات کی جائے۔

تین امریکی عہدیداروں اور براہ راست علم رکھنے والے ایک اہلکار کے مطابق ٹرمپ نے نہ صرف اس تجویز سے اتفاق کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ اپنے نائب صدر جے ڈی وینس اور اپنے سینیئر مشیر سٹیو وائٹیکر کو ترکی بھیجیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات کے لیے خود ترکی جانے کے لیے تیار ہیں۔

امریکی ذرائع کے مطابق اردوغان کی کال سے قبل ایران کے غیر سرکاری چینلز سے ’اشارے‘ ملے جو اس بات کی نشاندہی کرتے تھے کہ ایرانی فریق بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔ اردوغان کے فون کے بعد، انہوں نے اور ان کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے پیزکیان اور عباس عراقچی تک اس تجویز کو پہنچایا، لیکن دونوں خامنہ ای سے حتمی منظوری حاصل کرنے کی مشکل کا شکار ہو گئے کیونکہ وہ ان تک نہیں پہنچ سکے اور امریکی ذرائع کے مطابق استنبول اجلاس اسی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا۔

اس رپورٹ کی اشاعت کے فوراً بعد اور جنگ بندی کی خبر کے اعلان کے بعد، سی این این کے ایک رپورٹر نے ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے اطلاع دی کہ عراقچی ’جنگ بندی کے دوران رہبرِ اعلیٰ سے رابطہ کرنے سے قاصر رہے تاکہ کسی معاہدے کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکے۔‘

یہ صرف بین الاقوامی میڈیا اور ایران سے باہر فارسی زبان کے آؤٹ لیٹس ہی نہیں تھے جنہوں نے خامنہ ای کی غیر موجودگی کو نوٹ کیا۔ ٹرمپ اور نتن یاہو سمیت سیاسی عہدیداروں نے بھی اس مسئلے پر توجہ دی۔ امریکی صدر نے ایک بار اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک پیغام پوسٹ کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں لکھا: ’ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ نام نہاد سپریم لیڈر کہاں چھپا ہوا ہے، وہ ایک آسان ہدف ہے، لیکن ہم اسے باہر نہیں نکالنے والے، کم از کم ابھی نہیں، لیکن ہم نہیں چاہتے کہ شہریوں یا امریکی فوجیوں پر میزائل داغے جائیں۔ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔‘

موت، فرار اور بیماری کی افواہیں

علی خامنہ ای کی قسمت کے بارے میں بڑھتی ہوئی قیاس آرائیوں کے بعد، ایرانی پاسدارانِ انقلاب سے منسلک فارس نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ رہبر اعلیٰ کے مقام کی شناخت اور اسے نشانہ بنانے کے بارے میں ’افواہیں جھوٹ‘ ہیں اور اس ’امریکی اور اسرائیلی غصے اور الجھن کی عکاسی کرتی ہیں۔‘ پاسدارانِ انقلاب سے وابستہ آؤٹ لیٹ نے یہ بھی کہا کہ ایرانی رہنما ’صحت مند‘ ہیں۔

اس دعوے کے باوجود، علی خامنہ ای کے ایک مشیر اور معتمد مہدی فاضلی کی جانب سے ٹیلی ویژن پروگرام میں اپنی صحت کی حالت کی وضاحت کرنے سے احتراز نے الجھن میں اضافہ کیا۔ یہ ڈراما کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہ قطر میں امریکی اڈے پر حملہ اور جنگ بندی کا معاہدہ خامنہ ای کا فیصلہ تھا، فضلی نے میزبان کے خامنہ ای کی صحت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیا: ’دعا کریں!‘

آج اہم ابہام ایرانی فیصلوں میں سپریم لیڈر کی حقیقی شمولیت کی سطح کے بارے میں ہے۔ جنگ بندی کے فیصلے نے، جس پر کچھ سخت گیر افراد کی طرف سے سخت تنقید کی گئی ہے، بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ آیا خامنہ ای نے ذاتی طور پر اس فیصلے سے اتفاق کیا تھا، کیا انہیں اس کی اطلاع بھی دی گئی تھی اور کیا حالیہ دنوں میں اعلیٰ عہدے داروں نے ان سے ملاقات کی یا بات کی ہے۔

خامنہ ای کی خاموشی اور غیر موجودگی نے ان کے بارے میں کئی قیاس آرائیوں کو ہوا دی۔ نیویارک ٹائمز نے ایک سیاسی تجزیہ کار اور خامنہ ای کے سینیئر مشیر اور پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر یحییٰ صفوی کے بیٹے حمزہ صفوی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران کے سکیورٹی حکام کو جنگ بندی کے دوران خامنہ ای کو قتل کرنے کی اسرائیلی کوشش پر تشویش ہے۔ اسی مناسبت سے غیر معمولی حفاظتی پروٹوکول لگائے گئے ہیں اور بیرونی دنیا سے اس کا رابطہ سختی سے محدود کر دیا گیا ہے۔

صفوی نے بحران پر قابو پانے کے لیے ایک ’عملی نقطہ نظر‘ کے بارے میں بھی بات کی، جس میں پزشکیان جیسے دیگر عہدیداروں کو بااختیار بنانا بھی شامل ہے، لیکن دعویٰ کیا کہ خامنہ ای اب بھی اہم فیصلہ سازی میں دور سے شامل تھے۔

تاہم، دستیاب شواہد فیصلہ سازی میں علی خامنہ ای کی براہ راست شمولیت کے دعوے کی نفی کرتے ہیں اور اس امکان کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ یا تو دستیاب نہیں ہیں یا اب کوئی حکم جاری نہیں کریں گے۔

ایسی صورت حال میں ایران میں طاقت کے مختلف ستون بظاہر اپنی پوزیشنوں کو از سر نو ترتیب دے رہے ہیں اور اقتدار کی میز اور انقلاب کی میراث میں شریک ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ تو  جانشینی کے لیے بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا