ٹرمپ کا جوہری پروگرام پر بات کرنے کے لیے خامنہ ای کو خط

وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی کہ ٹرمپ کا خط ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات کی کوشش ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سات مارچ 2025 کو میری لینڈ میں ایئر فورس ون میں چڑھنے سے قبل ہاتھ لہراتے ہوئے (اے ایف پی/ روبرٹو شمٹ)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے، جس میں تہران کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور اس معاہدے کی جگہ نیا معاہدہ کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایرانی سرکاری میڈیا نے فوری طور پر ٹرمپ کے اس اعتراف کو اپنی خبروں میں جگہ دی۔ تاہم خامنہ ای کے دفتر نے اس خط کی وصولی کی تصدیق نہیں کی۔

ٹرمپ کا مکمل انٹرویو اتوار کو فاکس بزنس نیٹ ورک پر نشر ہو گا۔

یہ واضح نہیں کہ 85  سالہ ایرانی سپریم لیڈر اس پر کیا ردعمل دیں گے، کیونکہ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے 2015  کے جوہری معاہدے کے مذاکرات سے پہلے خامنہ ای کو لکھے گئے خطوط کو خفیہ رکھا تھا۔

ٹرمپ نے جمعے کو اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران خط کا براہ راست ذکر نہیں کیا، تاہم انہوں نے ایک ممکنہ فوجی کارروائی کا عندیہ دیا: ’ہمیں ایران سے متعلق ایک صورت حال کا سامنا ہے، اور کچھ بہت جلد ہونے والا ہے۔ بہت، بہت جلد۔‘

انہوں نے مزید کہا:  ’امید ہے کہ ہمارے درمیان ایک امن معاہدہ  کر لیں۔ میں طاقت یا کمزوری کے لحاظ سے بات نہیں کر رہا، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ میں امن معاہدہ چاہوں گا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو دوسرے راستے سے بھی مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘

ٹرمپ کے اس اقدام کا پس منظر یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تہران کی جانب سے ہتھیاروں کی سطح کے قریب یورینیم افزودہ کرنے کے بعد خطے میں فوجی تصادم کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

ٹرمپ نے فاکس نیوز کے اینکر ماریا بارٹیرومو کو دیے گئے انٹرویو میں کہا: ’میں نے انہیں ایک خط لکھا ہے جس میں کہا ہے، ’مجھے امید ہے کہ آپ مذاکرات کریں گے، کیونکہ اگر ہمیں فوجی کارروائی کرنی پڑی، تو یہ بہت خوفناک ہو گا۔‘

اقوامِ متحدہ نے ٹرمپ کے سفارتی اقدام کا خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے بیان میں کہا: ’اصولی طور پر، ہم ایک بار پھر اس مؤقف کی توثیق کرتے ہیں کہ سفارت کاری ہی ایران کے جوہری پروگرام کو پرامن رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ ہم اس مقصد کے لیے کی جانے والی تمام سفارتی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘

وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی کہ ٹرمپ کا خط ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات کی کوشش ہے۔

 اوول آفس میں گفتگو کے دوران ٹرمپ نے یہی جذبات دہرائے جو انہوں نے اپنے انٹرویو میں ظاہر کیے تھے۔ انہوں نے کہا: ’میں کسی معاہدے پر مذاکرات کرنا زیادہ پسند کروں گا۔ مجھے یقین نہیں کہ ہر کوئی مجھ سے اتفاق کرے گا، لیکن ہم ایسا معاہدہ کر سکتے ہیں جو اتنا ہی مؤثر ہوگا جتنا کہ جنگ جیتنا۔ لیکن وقت ابھی آ چکا ہے۔ وقت قریب ہے۔ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے، کسی نہ کسی طرح۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں کچھ کرنا ہوگا کیونکہ ہم انہیں جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا انہوں نے اپنے خط میں ایران کو کوئی مخصوص پیشکش کی ہے یا نہیں۔

دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اے ایف پی سے بیان میں کہا کہ ایران امریکہ سے جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری نہیں رکھے گا۔

’ایران کا جوہری پروگرام فوجی حملے سے تباہ نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو ہم نے حاصل کی ہے، دماغ اور ذہن میں موجود اس ٹیکنالوجی پر حملہ نہیں ہو سکتا۔‘

یہ اقدام ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو لکھے گئے خطوط کی یاد دلاتا ہے، جس کے نتیجے میں براہِ راست ملاقاتیں ہوئیں، مگر پیانگ یانگ کے جوہری ہتھیاروں اور بین البراعظمی میزائل پروگرام کو محدود کرنے کے حوالے سے کوئی معاہدہ طے نہ پا سکا۔

ایران طویل عرصے سے یہ مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، حالانکہ اس کے حکام امریکی پابندیوں اور اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران جوہری بم بنانے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔

جب سے ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس میں آئے ہیں، ان کی حکومت مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جانا چاہیے۔ تاہم، اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی گذشتہ ماہ جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے ہتھیاروں کے معیار کے قریب یورینیم کی پیداوار کو تیز کر دیا ہے۔

ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت ایران کے ساتھ تعلقات کے لحاظ سے خاصی کشیدہ رہی۔ 2018  میں، انہوں نے یک طرفہ طور پر امریکہ کو ایران اور عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے سے نکال لیا، جس کے نتیجے میں ایران پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں اور اس کی معیشت شدید متاثر ہوئی۔

2015  کے اصل جوہری معاہدے کے تحت، ایران کو صرف  3.67  فیصد خالصیت تک یورینیم افزودہ کرنے اور زیادہ سے زیادہ 300  کلوگرام (661 پاؤنڈ) یورینیم ذخیرہ رکھنے کی اجازت تھی۔

تاہم، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، ایران کا یورینیم ذخیرہ 8,294.4 کلوگرام (18,286 پاؤنڈ) تک پہنچ چکا ہے، جس میں سے کچھ کو 60  فیصد خالصیت تک افزودہ کیا جا چکا ہے۔ یہ ہتھیاروں کے معیار (90%) کے قریب پہنچنے کے لیے ایک تکنیکی طور پر چھوٹا مگر اہم قدم ہے۔

ایران کی جانب سے ہتھیاروں کے درجے کے قریب یورینیم کی تیز رفتار پیداوار نے ٹرمپ پر مزید دباؤ بڑھا دیا ہے۔ وہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن ساتھ ہی اپنی دوبارہ نافذ کردہ ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ پالیسی کے تحت ایران کی تیل کی فروخت پر پابندیاں سخت کر رہے ہیں۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے گذشتہ سال اگست میں ایک تقریر کے دوران امریکہ سے مذاکرات کے دروازے کھولنے کا عندیہ دیا تھا اور کہا تھا کہ ’دشمن سے بات چیت میں کوئی نقصان نہیں۔‘

تاہم، حالیہ بیانات میں انہوں نے اپنے موقف میں سختی لاتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات ’نہ تو دانشمندانہ ہیں، نہ عقلمندانہ اور نہ ہی باوقار‘، خاص طور پر جب ٹرمپ نے تہران کے ساتھ جوہری مذاکرات کی تجویز دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا